کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 8
سے کام لیا ہے[1]۔ لیکن یہاں پر میں کچھ ائمہ اور اہل علم کے اقوال پیش کروں گاجس سے آپ کی منزلت و شان واضح ہوگی۔ان ائمہ میں سے ایک حافظ ومؤرخ محمد بن ابی عمر ابن سید الناس اندلسی ہیں ‘ آپ کا عرصہ ۶۷۱ھ سے ۷۳۴ھ تک کا ہے۔ آپ لکھتے ہیں : ’’ جب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو دیکھا تو آپ کو ان لوگوں میں سے پایا جنہوں نے علم میں سے وافر حصہ پایا تھا ؛اور آپ کو سنن و آثار مکمل طور پر ازبر تھے ۔‘‘[2]
آپ کی منزلت بیان کرنے والوں میں امام حافظ بلاد شام ‘ قاسم بن محمد البرزالی ہیں ؛ جنہوں نے تاریخ میں ایک کتاب بھی لکھی ہے۔ آپ کا زمانہ ۶۶۱ھ تا ۷۴۴ ھ کا زمانہ ہے۔ آپ اپنے مشائخ کی معجم میں آپ کاتذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : ’’ آپ کی فضیلت و امامت مجمع علیہ تھی۔ آپ انتہائی ذہین اور اونچے درجہ کے انسان تھے۔ آپ نے فقہ کی تعلیم پائی اور اس میں مہارت تامہ حاصل کی۔ عربی لغت؛ اصول اور تفسیر میں انتہائی مہارت رکھتے تھے۔آپ بلا ریب امام تھے۔ اور درجہ اجتہاد پر فائز تھے۔ آپ میں امامت کی شروط پائی جاتی تھیں ۔‘‘
[1] شیخ الاسلام کے حالات زندگی کے متعلق سب سے وسیع کتاب ’’الجامع لسیرۃ شیخ الإسلام ‘‘ ہے۔ اس میں شیخ ابراہیم العلي نے آپ کے حالات زندگی تحریر کئے ہیں ۔ یہ کتاب دار القلم دمشق سے نشر ہوئی ہے۔
[2] أجوبۃ ابن سید الناس عن سوالات ابن ایبک (۲۲/۲۲۱)۔ نقلاً عن جامع لسیرۃ شیخ الإسلام۔