کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 69
روایت کرنے جھوٹ بہت زیادہ پھیل گیا تھا۔ اور فقہ میں کثرت سے رائے زنی کی جاتی۔ اور شیعیت یہاں پر جڑیں پکڑنے لگی۔ جب کہ جمہور اہل علم کلام اور تصوف بصرہ میں تھے۔ اس لیے کہ حسن بصری اور ابن سیرین کی موت کے تھوڑے ہی عرصہ بعد عمرو بن عبید اور واصل بن عطا[1]اور ان کے متبعین اہل کلام اور معتزلہ کا ظہور ہوا۔ ایسے ہی أحمد بن علی الہجیمی کا ظہور ہوا جو کہ عبد الواحد بن زید[2] کا ساتھی تھا۔
پھر آپ نے مختلف شہروں کے متعلق گفتگو کی ہے ؛ کہ کون سا شہر سنت کے زیادہ قریب تھا؟ چنانچہ ۱۰/۳۶۰ پر آپ فرماتے ہیں :
’’ اہل مدینہ ان تمام لوگوں سے بڑھ کر سنت کے قریب تھے۔ اس لیے کہ یہ لوگ اہل بصرہ اور اہل کوفہ کی طرح منحرف نہیں ہوئے تھے۔ نہ ہی رائے اور کلام کے پیچھے لگے نہ ہی سماع اور دوسری بیماریاں ان
[1] عمرو بن عبید اور واصل بن عطا (متوفی ۱۳۱ھ) یہ پہلے دو أشخاص ہیں جنہوں نے معتزلہ کے اصولوں کی بنیاد رکھی۔یہ حضرت حسن بصری رحمہ اللہ کے ہم مجلس لوگ تھے؛ پھر ان سے علیحدگی اختیار کرلی۔ ان کے عقائد میں سے اہل جمل کی عدالت کے بارے میں توقف ہے۔ابن عبید ان عقائد میں واصل کا شریک کار تھا۔ بلکہ علامہ ذہبی کے مطا بق عمرو بن عبید صحابہ کرام پر سب و شتم بھی کیا کرتا تھا۔ دیکھیں : میزان الاعتدال ۳/۲۷۴۔
[2] بصرہ میں صوفیاء کا شیخ تھا۔ اس نے سب سے پہلے صوفیاء کے لیے خانقاہیں تعمیر کیں ۔ محبت ؛ شوق اور انس میں کلام میں خوب مبالغہ آمیزی سے کام لیا۔اور ایسی مصطلحات اور احوال کے متعلق کے متعلق گفتگو کرتا رہا جن سے سلف صالحین نا آشنا تھے۔ دیکھیں : فتاوی ابن تیمیہ ۱۱/۶۔