کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 63
پھر وہاں سے یہ لوگ مصر پہنچے۔ اور وہاں اپنی حکومت قائم کرلی۔ اور اسی دور کے قریب قریب میں بنو بویہ کی حکومت قائم ہوئی ۔ ان میں بہت زیادہ زندیق اور اہل بدعت لوگ تھے۔[1]
ان کے عہد میں بنو عبید القداح نے مصر میں خوب زور پکڑا۔ اور ان ہی کے دور میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب مقبرہ سامنے آیا جو کہ نجف اشرف کی ایک جانب میں واقع تھا۔ وگرنہ اس سے پہلے کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ حضرت علی کی قبر اطہر نجف أشرف میں ہے۔ کیونکہ آپ کو کوفہ کے گورنر ہاوس میں دفن کیا گیا تھا۔
پھر آپ نے روافض کی بدعات کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کے اوائل مؤجدین کے متعلق بھی بتایا ہے۔چنانچہ آپ ۴/۵۱۸ پر فرماتے ہیں :
’’ سب سے پہلے جس نے حضرت علی کے معصوم ہونے کے عقیدہ کی بدعت ایجاد کی اور یہ کہا کہ آپ منصوص خلیفہ ہیں ؛ وہ شخص منافقین کا سردار عبداللہ بن سباء ہے۔جوکہ پہلے یہودی تھا؛ پھر اس نے اسلام کا
[1] جاری حاشیہ )ہونے کا دعوی کرتے تھے۔مگر اکثر علماء اسلام اور ماہرین انساب اور مؤرخین اس کا انکار کرتے ہیں ۔ ابن خلدون کے علاوہ ان کے اس دعوی کو کسی ایک نے بھی صحیح نہیں کہا۔ پھر مقریزی نے بھی ابن خلدون کے مؤقف کی تائید کی ہے۔
ان لوگوں کے دور حکومت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اعلانیہ گالیاں دی جانے لگیں ۔ اور یہ گالیاں مساجد کی دیواروں پر بھی لکھی جاتی تھیں ۔ اور معز الدولہ نے لوگوں پر دس محرم یوم عاشورا کو یوم غم کے طور پر منانا لازم قرار دیا۔ یہ بدعت کئی سال تک جاری رہی۔ اسی نے عید غدیر خم کی محفل منعقد کروائی ۔ [انظر:السیوطی؛ تاریخ الخلفاء ؛ حوادث ۳۵۱ہجری]