کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 32
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس پر خاموش رہے؛آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ ان اوراق کی توہین کرنا یا ان پر تھوکنا جائز نہیں ۔نیز یہ کہ سلف صالحین نے قرآنی تحریر کو پاؤں سے مٹانے کومکروہ سمجھا ہے؛ لیکن آدمی کو کلام مٹانے کو مکروہ نہیں سمجھا۔‘‘ ایسے ہی جب آپ قتل خطا کے مسئلہ پر بحث کرتے ہیں کہ اس میں نہ ہی دیت ہے اور نہ ہی قصاص؛تو اس پر آپ نے اس آدمی کے واقعہ سے استدلال کیا ہے جو سردی کی وجہ مر گیا تھا۔ چنانچہ آپ (۲۰/۲۵۴پر) فرماتے ہیں : ’’[نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا]: ’’انہوں نے اسے قتل کردیا اللہ تعالیٰ انہیں قتل کرے؛ جب انہیں کسی چیز کا علم نہیں تھا تو انہوں نے سوال کیوں نہیں کیا؟۔ بیشک مرض جہالت کی شفاء سوال کرنے میں ہے۔ ‘‘[1] بیشک یہ لوگ بغیر اجتہاد کے خطاء کے مرتکب ہوئے تھے؛ اس لیے کہ خود اہل علم میں سے نہیں تھے۔ایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ پر اس شخص کے بدلہ میں نہ ہی قصاص عائد کی اورنہ ہی دیت یا کفارہ عائد کیا جسے غزوہ حرقات میں لاإلہ إلااللّٰہ کے اقرار کے بعد قتل کردیا تھا۔اس لیے کہ آپ اسے قتل کرنا جائز سمجھتے تھے؛ ان کے خیال میں اس طرح اسلام قبول کرنا صحیح نہیں تھا؛ حالانکہ اسے قتل کرنا حرام تھا۔
[1] رواہ أبوداؤد ؛ کتاب الطہارۃ‘ باب في المجروح إذا تیمم؛ ح: ۳۳۶۔و حسنہ الألباني‘ و ابن ماجۃ ‘ کتاب الطہارۃ‘ باب المجروح تصیبہ الجنابۃفیخاف علی نفسہ إن اغتسل؛ح: ۵۷۸۔