کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 31
تو اس سے ثابت ہوا کہ جن لوگوں کے ساتھ کھیل تماشا مناسب لگتاہے ؛ انہیں عید وغیرہ کے موقع پر کھیل تماشے کی رخصت حاصل ہے۔اگرچہ مردایسے نہیں کیا کرتے؛ اور نہ ہی باطل میں مال خرچ کرنا جائز ہے ۔‘‘
ایسے ہی آپ ایسے کاغذ پر جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسم گرامی لکھا گیا ہو ‘ تھوکنے کے جواز پر اس واقعہ سے استدلال کرتے ہیں ؛۱۲/۶۹پر لکھتے ہیں :
’’سیرت کی کتابوں میں ہے کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غطفان سے مدینہ کی آدھی کھجوروں پر صلح کرلی؛ تو حضرت سعد رضی اللہ عنہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض گزار ہوئے:’’کیا یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے تو پھر اس پر سر تسلیم خم کرلیتے ہیں ؟۔ یا پھر کوئی ایسی چیز ہے جو آپ ہماری مصلحت کی وجہ سے کرنا چاہتے ہیں ؟۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی کہ اس سلسلہ میں ان کے پاس کوئی وحی نہیں آئی؛ بلکہ آپ نے اپنے اجتہاد سے ایسے کیا ہے۔‘‘
تو عرض گزار ہوئے:’’ جب ہم عہد جاہلیت میں تھے؛تو یہ لوگ ہم سے کھجور کا دانہ بطور مہمانی کے یا خرید کر کھایا کرتے تھے؛جب اللہ تعالیٰ نے ہمیں اسلام کی وجہ سے عزت دی تو اب یہ ہم سے کھجور کا ایک دانہ بھی ایسے نہیں کھا سکتے۔‘‘یہ کہہ کر انہوں نے وہ تحریر پھاڑ دی اور اس پر تھوک دیا۔‘‘[کتاب المغازی للواقدي ۲/۴۷۸]