کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 30
اورایسے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کو غزوہ غابہ اور ذی قرد میں دوڑ لگانے کی اجازت دی تھی۔[1]
اس میں کوئی شک نہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے
’’ انسان کا ہر کھیل تماشہ باطل ہے‘سوائے اس کے کہ: اپنی کمان سے تیر چلائے؛ یا اپنے گھوڑے کی تربیت کرے یا اپنی بیوی سے کھیلے ‘ یہ امور حق ہیں۔‘‘[2]
جو کوئی باطل کھیل تماشے سے مال کماکر کھائے تو وہ بھی باطل ہے۔مگر اس کے ساتھ ہی اس میں ایسے رخصت بھی حاصل ہے جیسے چھوٹے بچوں کو رخصت حاصل ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں انصار کی دو چھوٹی بچیاں عید کے دن گارہی تھیں ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہی ان کی طرف توجہ دے رہے تھے اور نہ ہی ان سے منع کررہے تھے۔جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں یہ شیطانی باجے بجائے جارہے ہیں ؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے ابو بکر ان کو چھوڑ دے؛ بیشک ہر قوم کی ایک عید ہوتی ہے؛ اور آج ہماری عید ہے۔‘‘[3]
[1] صحیح مسلم باب غزوۃ ذي قرد و غیرھا ؛ح: ۱۸۰۷۔
[2] قال ابن حجر: أخرجہ أحمد والأربعۃ و صححہ ابن خزیمۃ و ابن حبان والحاکم من حدیث عقبہ بن عامر؛ فتح الباری ۶/۱۰۹۔
[3] رواہ النسائي ‘ کتاب صلاۃ العیدین‘ باب الرخصۃ في الإستماع إلی الغناء وضرب الدف یوم العید۔ و أحمد في مسندہ ؛ح: ۲۵۰۸۲۔