کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 29
حالانکہ خمس کے پانچویں حصہ میں ایسا تصرف کرنا جائز ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ، امام مالک اور حضرت سعید بن مسیب رحمہما اللہ پر تعجب کیا کرتے تھے کہ اتنی مشہور سنت ان کے اتنے بڑے علم کے باوجود ان تک کیونکر نہیں پہنچ سکی؟۔ جیسا کہ ’’ صحیحین میں یہ بات ثابت ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہاتھا:
’’ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کی طرف ایک سریہ میں بھیجا۔ ہم میں سے ہر ایک آدمی کے حصہ میں بارہ اونٹ آئے اور ہمیں ایک ایک اونٹ زیادہ بھی دیا گیا۔ ‘‘[1]
مختلف اقسام کے کھیل کود جیسے کشتی اور دوڑ کو جائز کہتے ہوئے اس پر سیرت نبی سے استدلال کیا ہے۔ چنانچہ (۳۰/۲۱۶پر) آپ فرماتے ہیں :
’’کشتی کرنا جائز ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکانہ بن عبد یزید سے کسی کی تھی[2]اور ایسے ہی پیدل دوڑ لگانا بھی جائز ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے ساتھ پیدل دوڑ لگائی تھی۔[3]
[1] قد سبق تخریجہ۔
[2] رواہ الترمذي‘ کتاب اللباس‘ باب العمائم علی القلانس‘ح: ۱۷۸۴۔ وقال: حدیث غریب؛ واسنادہ لیس بقائم۔ تہذیب الکمال۹/۲۲۱۔
[3] یہ روایت صحیح ہے۔ مسند أحمد ۵/۲۲؛ أبو داؤد کتاب الجہاد باب في السبق علی الرجل۔