کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 28
جب آپ فقہی مسائل کے متعلق گفتگو کرتے ہیں تو اس متعین مسئلہ کے اثبات یا نفی میں سیرت نبوی سے دلیل پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً:
آپ اموال غنیمت اور ان کی تقسیم کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے (۲۹/۳۱۶ پر) فرماتے ہیں :
’’ سنت طریقہ یہ ہے کہ تمام مال جمع کیا جائے پھر اس میں سے خمس (پانچواں حصہ )نکال کر باقی مال غنیمت حاصل کرنے والے مجاہدین میں عدل و انصاف کیساتھ تقسیم کردیا جائے۔ لیکن کیا امام وقت کے لیے جائز ہے کہ وہ باقی چار حصوں میں سے کسی ایک کو کچھ زیادہ دے ؟ ۔اس بارے میں دو قول ہیں ۔ سرحدی علماء؛امام ابو حنیفہ اور أحمد بن حنبل ؛اور علماء اہل الحدیث رحمہم اللہ کا مذہب یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز ہے جیسا کہ سنت میں وارد ہوا ہے[1]کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شروع میں خمس کے چوتھائی حصہ میں سے زیادہ انعام و اکرام دیا؛ اور واپسی پر خمس کے تیسرے حصہ سے دیا۔‘‘
جب سعید بن مسیب؛ امام مالک اورحضرت امام شافعی رحمہم اللہ فرماتے ہیں :
’’ ایسا کرنا جائز نہیں ۔بلکہ امام مالک کے نزدیک خمس میں سے انعام و اکرام دینا جائز ہے جب کہ امام شافعی کے نزدیک ایسا کرنا جائز نہیں
[1] سنن الترمذي؛ ح:۲۱۴۱۔ ضعف سندہ الألباني۔ ورواہ أبوداؤد و صحح سندہ الألباني۔