کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 26
یہی وجہ ہے کہ علماء کرام نے فرمایا ہے:
’’ مستحب یہ ہے کہ اہل دین اور نیک و کار لوگوں سے بارش کے لیے دعاء کروائی جائے۔اور اگر یہ لوگ اہل بیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہوں تو بہت بہترہے۔ ‘‘[1]
جب آپ ان لوگوں پر رد کرتے ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتداء میں باجماعت نماز اور نماز جمعہ ترک کر تے ہوئے غاروں اور پہاڑوں میں روپوشی اختیار کرنا جائز ہے ؛ اور اس بارے میں اہل کی کتب میں وارد بعض روایات سے استدلال کرتے ہیں ؛ تو ان پر رد کرتے ہوئے(۱۸/۱۰۔۱۱ پر) فرماتے ہیں :
’’ وہ کتابیں جن میں اس طرح کی روایات ہیں ؛ ان میں سے بعض تفسیر کی کتابیں ہیں ؛اور سیرت ومغازی کی کتابیں بھی ہیں ؛اور کتب احادیث بھی۔یہ امور نبوت کے بعد خاص ہیں ۔ اگرچہ ان میں سے بعض امور نبوت سے پہلے بھی پیش آئے ہیں ؛ لیکن ان کا ذکر اس لیے نہیں کیا جاتا کہ ان سے استدلال کیا جائے؛ یاایسا کرنا مشروع ہے ۔ بلکہ تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ جس چیز پر ایمان لانا اور اس کے مطابق عمل کرنا مسلمان پر فرض ہے وہ ایسے امورہیں جو نبوت کے بعد کے ہیں ۔‘‘
[1] سنن النسائی ‘کتاب تحریم الدم؛ باب الحکم فی المرتد؛ ح:۴۰۷۸۔ أبو داؤد ‘ کتاب الجہاد ؛ باب قتل الأسیر ولا یعرض علیہ الإسلام‘ح:۲۶۸۳۔ صححہ الألبانی