کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 25
ثالثاً : تاریخی واقعات سے فقہی و عقدی استدلال
آپ سیرت کا کوئی واقعہ پیش کرتے ہوئے اس سے فقہ اور عقیدہ کے مسائل پر استدلال کرتے ہیں ۔ یا یوں کہنا بھی ممکن ہے کہ جب آپ عقیدہ یا فقہ کے کسی مسئلہ پر گفتگو کرتے ہیں تو اس پر سیرت نبی سے دلیل پیش کرتے ہیں ۔ مثلاً:
توسل اور طلب شفاعت کا عقیدہ ؛ کہ میت سے ایسا کرنا جائز نہیں ۔ آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے فعل سے استدلال کیا ہے؛ جب آپ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے دعاء کروائی۔ یہ اس وقت کی بات ہے جب قحط پھیل گیا تھا۔ چنانچہ آپ ( ۱/۳۱۴پر) فرماتے ہیں :
’’ جب شام میں خشک سالی تھی تو حضرت معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہمانے بھی ایسے ہی کیا تھا۔ آپ نے حضرت یزید بن أسود الجرشی سے بارش کے لیے دعاء کرنے کو کہا تھا؛ اور ساتھ ہی یہ دعا کی تھی:’’اے اللہ ! ہم تیری بارگاہ میں اپنے بہترین لوگوں کا وسیلہ پیش کرتے ہیں ؛ یا ان کی سفارش پیش کرتے ہیں۔‘‘ اور پھر کہا:
’’ اے یزید! اپنے ہاتھ اٹھا کر دعاء کرو۔‘‘
آپ نے ہاتھ اٹھا کر دعاء فرمائی اور لوگوں نے بھی آپ کے ساتھ دعاء کی یہاں تک کہ لوگ بارش سے سیراب ہوگئے۔‘‘ [1]
[1] یہ قصہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں ذکر کیا ہے (۹۳۹۵)۔ الارواء ۳/۱۴۰۔