کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 22
ہم میں سے ہر ایک آدمی کے حصہ میں بارہ اونٹ آئے اور ہمیں ایک ایک اونٹ زیادہ بھی دیا گیا۔ ‘‘[1]
اورحضرت ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہماکے مقام و مرتبہ حتی کے کفار کے ہاں ان کی اہمیت پر اس صحیح حدیث سے استدلال کیا ہے ‘چنانچہ آپ ۴/۴۵۶ پر فرماتے ہیں :
’’صحیحین میں یہ ثابت ہے کہ غزوہ احد کے موقع پر جب اکثر مسلمان میدان سے نکل گئے تو ابو سفیان جو کہ مشرکین کے لشکر کا سردار تھا ‘ اس نے ایک بلند جگہ پر چڑھ کر پکارا: اے مسلمانو!کیا محمد زندہ ہیں ؟ ۔ کیا محمد زندہ ہیں ؟ کیا محمد زندہ ہیں ؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ خاموش رہو؛ جواب نہ دو۔‘‘
پھر کہنے لگا :اچھا ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکر رضی اللہ عنہ زندہ ہیں ؟ ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکر رضی اللہ عنہ زندہ ہیں ؟۔ابوقحافہ کے بیٹے ابوبکر رضی اللہ عنہ زندہ ہیں ؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’چپ رہو جواب مت دو۔‘‘
پھر کہا :’’اچھا خطاب کے بیٹے عمر رضی اللہ عنہ زندہ ہیں ؟ ’’اچھا خطاب کے بیٹے عمر رضی اللہ عنہ زندہ ہیں ؟۔’’اچھا خطاب کے بیٹے عمر رضی اللہ عنہ زندہ ہیں ؟
پھر کہنے لگا کہ معلوم ہوتا ہے کہ سب مارے گئے اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے ۔یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے ضبط نہ ہو سکا اور کہنے لگے: او دشمن خدا!
[1] رواہ البخاری کتاب فرض الخمس ‘ ح۳۱۳۴۔