کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 20
پھر آپ نے سیرت میں پیش آنے والے واقعات پر گفتگو کی ہے ؛ اور اس میں ان روایات کو مقدم رکھا ہے جو صحیح مسلم میں وارد ہوئی ہیں اور پھر صحیح احادیث میں وارد روایات کی بنا پر غزوہ پیش آنے کے وقت کو ترجیح دی ہے اور کہا ہے: ’’غزوہ غابہ یا غزوہ ذی قرد جس کا ذکر امام مسلم نے کیا ہے ؛ جس میں ہے کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ[1]یہ کہتے جاتے تھے:’’ یہ لو؛ میں اکوع کا بیٹا ہوں ؛ آج کا دن کمی لوگوں کی ہلاکت کا دن ہے ۔‘‘یہ اس وقت کا قصہ ہے جب بنی فرازہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنیوں پر دھاوا بول دیا تھا۔ غزوہ خیبر اس کے بعد پیش آیا۔ یہ سن چھ ہجری کے آخر اور سات ہجری کے شروع کی بات ہے ۔‘‘اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے۔‘‘ ایسے ہی آپ نے صحیح احادیث کی بنا پر غزوہ خندق کی تاریخ بھی متعین کی ہے
[1] ...ہے۔مزید تفصیل کے لیے دیکھیں :صحیح البخاری ؛کتاب المغازی‘باب قتل أبي جہل؛ و في مسلم کتاب الجہاد و السیر باب استحقاق القاتل سلب القتیل‘ ح۳۲۹۶۔ سنن الترمذی باب ماجاء في قتل الأساری والفداء‘ح ۱۰۶۳۔  حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ کا شمار انتہائی بہادر لوگوں میں ہوتا ہے۔ آپ سب سے پہلے صلح حدیبیہ میں شریک ہوئے۔ آپ پیدل دوڑتے ہوئے دشمن کے گھوڑے سے آگے بڑھ جایا کرتے تھے۔ آپ نے۷۴ھ میں ‘مدینہ طیبہ میں وفات پائی ۔مذکورہ بالا واقعہ کی تفصیل دیکھیں : بخاری ‘ کتاب المغازی؛ باب غزوہ ذات القرد‘ ح: ۴۱۹۴؛ مسلم کتاب الجہاد و السیر باب غزوۃ ذي قرد وغیرھا ‘ ح: ۱۸۰۶۔