کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 12
محمد رشاد سالم رحمہ اللہ لکھتے ہیں :’’میرے لیے یہ کہنا ممکن ہے کہ آپ کو ان تمام علوم کی معلومات تھیں جو آپ سے پہلے مدون ہوچکے تھے اور اس سے قبل اس کی کتابیں تیار ہوچکی تھیں ۔اور پھر آپ نے ان تمام علوم کا خلاصہ اپنی تحریروں میں ہمارے لیے نقل کیا ہے۔یہ نقل مختلف افکار و آراء اور خیالات کی طرف اشارہ کے طور پر تھی اور کبھی کبھار ان چیزوں پر تبصرہ بھی کیا کرتے تھے۔‘‘یہی وجہ ہے کہ ہم اکثر دیکھتے ہیں کہ آپ کی تحریروں میں اکثر طور پر دوسری کتابوں سے منقول کئی کئی مکمل صفحات ہوا کرتے ہیں ۔ وہ کتابیں جو کہ ابھی تک یا تو مفقود ہیں یا پھر مخطوط ہی ہیں ۔ میں یہ اعتقاد رکھتا تھا اور اب بھی یہ اعتقاد رکھتا ہوں کہ مسلمان علماء میں سے اس چیز کا سب سے زیادہ اہتمام کرنے والے ابن تیمیہ تھے۔ اور آپ کی تالیفات کو نشرو اشاعت اور درس و تدریس کے اعتبار سے پہلے درجہ پر اہمیت دینا چاہیے ۔ کیونکہ آپ کی کتابیں ہمارے سلف صالحین کی صحیح وراثت شمار ہوتی ہیں ۔‘‘
ایک معاصر ریسرچ سکالر نے اس جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے:
’’ بہت سارے علماء کرام ایسے ہی جنہوں نے تاریخ کی طرف مناسب توجہ نہیں دی۔ لیکن بعض واقعات پر ان کی آراء و تعلیقات موجود ہیں ۔ یا پھر عمومی طور پر انہوں نے بعض ممالک اور بعض ادوار کے متعلق اظہار خیال کیا ہے۔ ان کی ان آراء کی بہت بڑی قدر و قیمت ہے۔اس لیے کہ یہ علماء سب لوگوں سے بڑھ کر انصاف اور سچائی کی تلاش میں رہنے والے تھے۔ عوام یا حکومت سے انہیں کوئی