کتاب: منہج ابن تیمیہ - صفحہ 10
علامہ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ علم الرجال میں آپ کو مکمل آگاہی حاصل تھی اور جرح و تعدیل اور طبقات رجال پر عبور تھا۔ فنون حدیث کی معرفت رکھتے تھے۔عالی و نازل اسناد کی معرفت حاصل تھی۔ صحیح اور ضعیف حدیث کی پہچان کے ساتھ ساتھ جو الفاظ منفرد وارد ہوئے ہیں ؛ ان کے متن بھی زبانی یاد تھے۔ آپ کے زمانہ میں کسی دوسرے کا آپ کے مقام تک پہنچنا تو دور کی بات اس کے قریب بھی نہیں پہنچ سکے تھے۔ مسائل کے استحضار پر عجیب قدرت رکھتے تھے۔اور پھر ان سے دلائل کے استخراج کا عالم ہی کچھ دوسرا تھا۔ کتب ستہ کی نسبت کا خاصہ آپ پر ختم ہوتا تھا۔ اور آپ کے متعلق یہ کہنا بالکل درست ہے کہ:’’وہ حدیث جسے ابن تیمیہ نہیں جانتے وہ حدیث ہی نہیں ۔‘‘ لیکن تمام علوم کا مکمل احاطہ تو صرف اللہ تعالیٰ کو ہی ہے۔ حالانکہ اس سمندر سے چلو بھرے جاسکتے ہیں ۔ دوسرے ائمہ ساقی کے جام سے اپنے چلو بھرتے ہیں ؛ انہیں کئی کئی سال گزرجاتے ہیں اور وہ ایک متعین مذہب کے مطابق ہی فتوی دیتے ہیں ۔اور ایسی ایسی عبارتیں استعمال کرتے ہیں جن سے اگلے اور پچھلے لوگ کتراتے اور خوف محسوس کرتے رہے مگر اس انسان جرأت نے اس سے یہ بھی کروا دیا ۔‘‘[1] نیز آپ یہ بھی فرماتے ہیں : ’’ آپ کا مقام و مرتبہ اس چیز سے بہت بلند ہے کہ میرے جیسے لوگ
[1] مختصر طبقات علماء الحدیث۔ نقلاً عن جامع سیرۃ شیخ الاسلام ص ۱۹۳ـ۱۹۴۔ مرعی الکرمی؛ الشہادۃ ص ۴۱۔