کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 98
نے کسی انصاری صحابی کو برا بھلا کہہ دیا، تو انصاری نے پکار لگائی : اے انصار کی جماعت !، اور مہاجر نے پکار لگائی : اے مہاجرین کی جماعت!، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس جاہلیت کی پکار کا کیا ماجرا ہے؟، تو صحابہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک مہاجر نے ایک انصاری کو برا بھلا کہا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اس تعفن آمیز پکار کو چھوڑ دو" [1]۔
جہاں تک مسلکی تعصب کا تعلق ہے تو ابتدائی تین سو سال تک اس کا کوئی وجود نہ تھا ، لیکن اس کے بعد یہ مسلمانوں میں در آیا، اور چوتھی اور پانچویں صدی میں تو یہ اپنے عروج پر تھا، یہاں تک کہ بعض افراد نے تعصب کے مارے حنفی اور شافعی کے درمیان نکاح کو ہی ناجائز قرار دے دیا، اسی لئے جو شخص کسی خاص مسلک کا حامل ہو تو دو مختلف طرز عمل میں سے ایک کو وہ ضرور اختیار کرے گا: (۱) یا تو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اصل میزان اور معیار قرار دے گا اور اپنے مسلک و مذہب کےتمام اقوال و مسائل کو اس میزان پر تولے گا۔ اور یہی طرز عمل اس کے لئے واجب ہے۔(۲) یا پھر وہ اپنے مسلک و مذہب کو میزان و معیار قرار دے گا۔ اور یہ سب سے بڑا باطل ہے ۔ جبکہ بعض تعصب زدہ افراد کی جرات اس قدر بڑھ گئی کہ انہوں نے کہا کہ : ہر وہ آیت اور حدیث جو ہمارے مذہب کے خلاف ہو اس کی تاویل کی جائے گی یا اسے منسوخ قرار دیا جائے گا۔۔!۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "جس نے کسی خاص امام کے بارے میں کہا کہ صرف اس کی اتباع واجب ہے تو اس شخص سے توبہ کرائی جائے گی، اگر وہ توبہ نہ کرے تو اسے قتل کردیا جائے گا، اور جس نے کسی خاص امام کے بارے میں کہا کہ صرف اس کی اتباع کرنی چاہئے تو وہ یقیناً گمراہ اور جاہل ہے"، پس فہم صحابہ رضی اللہ عنہم کی روشنی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی متابعت ضروری ہے۔
رہی بات جماعتوں اور گروہوں کے لئے تعصب کرنا ، تو ہمارے زمانے میں اس کی کثرت کے کیا ہی کہنے!، اور اس پر مسند احمد اور جامع ترمذی کی وہ روایت بالکل صادق آتی ہے جسے شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ نے اپنی کتاب "فضل الاسلام" میں " اسلام سے نکلنے کے بیان میں " کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے، اس حدیث کے راوی سیدنا حارث اشعری رضی اللہ عنہ ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "میں تمہیں ان پانچ چیزوں کا حکم دیتا ہوں جن کا حکم مجھے اللہ تعالی نے دیا ہے، سمع ، اطاعت، جہاد ، ہجرت اور جماعت، کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت کے برابر بھی الگ ہو ا تو اس نے اسلام کی رسی کو اپنی گردن سے نکال پھینکا مگر یہ کہ وہ رجوع کر لے، اور جس نے جاہلیت کی پکار لگائی تو وہ جہنم کا ایندھن بنے گا"، ایک صحابی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اگرچہ وہ نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا ہو؟، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "چاہے وہ نمازیں پڑھتا اور روزے رکھتا ہو، لہذا اللہ کے بندوں تم محض اللہ ہی کی پکار سے پکارا کرو جس نے تمہارا نام
[1] صحیح بخاری (کتاب المناقب: 3330)، صحیح مسلم (کتاب البر والصلہ: 2584)