کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 97
تمام گناہ آج معاف ہوجاتے)، ان کی یہ بات سن کر سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے فرمایا : "میں کسی مسلمان سے وقت تک قتال نہیں کروں گا جب تک کہ اسامہ اس سے قتال نہ کرے"، تو اس موقع پر ایک شخص کہنے لگا: کیا اللہ تعالی نے یہ نہیں فرمایا: ]وَقَاتِلُوْهُمْ حَتّٰي لَا تَكُوْنَ فِتْنَةٌ وَّيَكُوْنَ الدِّيْنُ كُلُّهٗ لِلّٰهِ ] (الانفال : 39)
ترجمہ: "ایسے لوگوں سے جہاد کرتے رہو تاآنکہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین پورے کا پورا اللہ کے لئے ہوجائے"۔تو سعدرضی اللہ عنہ نے فرمایا:" ہم نے تو قتال کیا یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہا ، جبکہ اب تم اور تمہارے ساتھیوں کا ارادہ ہے کہ تم لوگ قتال کرو تاکہ فتنہ زور پکڑے"[1]۔
امام خلال رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں : مجھے عیسی بن علی نے بیان کیا ہے کہ ایک مرتبہ فقہاء بغداد یعنی ابو بکر بن عبید ، ابراہیم بن علی اور فضل بن عاصم سب مل کر امام احمد کے پاس آئے ، میں نے امام احمدرحمہ اللہ سے ان کے لئے اجازت طلب کی ، انہوں نے اجازت دے دی ، ان حضرات نے امام احمد سے عرض کیا کہ : اےابو عبداللہ ! یہ معاملہ اب حد سے گزرچکا ہے " یعنی خلق قرآن کا مسئلہ ، تو امام احمد نے فرمایا : آپ لوگ کیا چاہتے ہیں ؟ انہوں نے عرض کیا: ہم خلیفہ کی امارت پر راضی نہیں ہیں اور اس کے متعلق آپ سے مشورہ کرنے آئے ہیں ، تو امام احمد رحمہ اللہ نے ان سے کافی دیر تک اس معاملہ پر بحث کی ، بالآخر آپ نے فرمایا: "آپ اس معاملہ کو اپنے دلوں میں ضرور غلط سمجھیں ، لیکن خلیفہ کی اطاعت سے اپنا ہاتھ نہ کھینچیں ، آپ لوگ مسلمانوں کی لاٹھی توڑنے کے لئے آلہ کار نہ بنیں ، اور اپنا اور دیگر مسلمانوں کے ناحق خون بہنے کا سبب نہ بنیں ، اپنے معاملہ کے انجام کا انتظار کریں ، یہاں تک کہ نیکو کار (اپنی موت کے ذریعہ ) راحت پالے ، یا پھر بد کار (کے مرنے) سے راحت نصیب ہوجائے"[2]۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " جس کے دل کو اللہ تعالی منور فرمادے تو وہ قرآن وحدیث اور شریعت میں موجود خیر سے آگاہ ہوجاتا ہے، اور اگر ایسا نہ ہو تو بھی بہرحال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین مبارکہ کی پیروی اس پر ہر حال میں لازم ہے، اور اس کے لئے قطعی یہ گنجائش نہیں کہ وہ اسے اپنی رائے یا خواہش کے ذریعہ رد کردے"۔
5 قومیت ، مسلک، جماعتوں ، گروہ یا شخصیات کے لئے تعصب کرتے ہوئے نصوص قرآن وحدیث کو رد کرنا:
جہاں تک قومیت کے لئے تعصب کا تعلق ہے تو اس کی مذمت کی دلیل صحیح بخاری ومسلم کی وہ روایت ہے جس کے راوی سیدنا جابر رضی اللہ عنہ ہیں ، وہ فرماتے ہیں : ایک دفعہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی غزوہ میں تھے کہ دوران سفر ایک مہاجر صحابی
[1] صحیح مسلم ، کتاب الایمان : 158
[2] کتاب السنہ ،خلال (1/133)