کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 96
دوڑایا اور مسلمانوں کے لشکر سے آگے نکل گیا، میں ڈر رہا تھا کہ اب میرے بارے میں قرآن نازل ہوگا، چنانچہ ابھی کچھ ہی دیر گزری تھی کہ منادی نے میرے نام کی پکار لگائی ، میں نے سوچا کہ مجھے پہلے ہی خوف تھا کہ اب میرے بارے میں قرآن ضرور نازل ہوگا، بہرحال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "آج مجھ پر ایسی سورت نازل ہوئی ہے جو مجھے دنیا جہاں سے زیادہ محبوب ہے"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ فتح کی قراءت فرمائی [1]۔
اسی حوالہ سے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا ایک اثر ہے جو کہ امام خلال رحمہ اللہ کی کتاب السنہ میں منقول ہے، امام خلال فرماتے ہیں : مجھے محمد بن ہارون اور محمد بن جعفر نے خبر دی کہ ابو حارث نے انہیں یہ بیان کیا ہے کہ بغداد میں ایک واقعہ ہوا جس کے خلاف کچھ لوگوں نے حاکم وقت کے خلاف خروج کا ارادہ کیا، تو ابو حارث فرماتے ہیں کہ میں نے امام احمد رحمہ اللہ سے پوچھا کہ : اے ابو عبداللہ ! آپ ان لوگوں کے خروج کے متعلق کیا فرماتے ہیں ؟، تو امام احمد رحمہ اللہ فرمانے لگے: سبحان اللہ ! خون خون !، میں تو کبھی بھی اس کا نہ مشورہ دوں گا نہ حکم دو ں گا ، جس پریشانی میں آج ہم لوگ ہیں اس پر صبر کرنا اس فتنہ سے کہیں بہتر ہے جس میں لوگوں کا ناحق خون بہے ، مال ومتاع لٹ جائے اور حرمتیں پامال ہوجائیں ، کیا تم نہیں جانتے کہ گزشتہ فتنوں کے دوران لوگوں پر کیا گزری ہے؟ " ، میں نے کہا : اے ابو عبداللہ ! کیا آج بھی لوگ فتنہ کا شکار نہیں ہیں ؟، امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: "یہ فتنہ محدود ہے ، لیکن جب تلواریں بے نیام ہوجائیں تو فتنہ آگ کی طرح پھیل جاتا ہے اور سب راستے بند ہوجاتے ہیں، لہذا اس فتنہ پر صبر کر کے اپنے دین کو محفوظ کرلو تو یہی تمہارے لئے زیادہ بہتر ہے" [2]۔
امام احمد کا یہ قول اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کی حدیث کی یاد دلاتا ہے، اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہم پر روانہ فرمایا، ہم جہینہ قبیلہ کے قریب ایک مقام حرقات پہنچے وہاں مشرکین سے ٹکراؤ ہوا، تو اس قتال میں میں نے ایک شخص کو گھیر لیا تو اس نے کہا : لا الہ الا اللہ، لیکن میں نے اسے قتل کردیا، البتہ یہ بات میرے ذہن سے نہ نکل سکی اور بالآخر میں نے واپس آکر یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کردی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا اس نے لا الہ الا اللہ کہا اور پھر بھی تم نے اسے قتل کردیا؟ " میں نے عرض کیا: "اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے یہ بات موت کے خوف سے کہی تھی!" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا کہ اس نے یہ بات دل سے کہی ہے یا نہیں ؟" اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات کو دہراتے رہے یہاں تک کہ میں یہ تمنا کرنے لگا کہ کاش میں نے آج ہی اسلام قبول کیا ہوتا( اور میرے گزشتہ
[1] صحیح بخاری (کتاب الشروط، 2581)
[2] کتاب السنہ، خلال (1/132)