کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 95
میں نے کہا : کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ہیں ؟" آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیوں نہیں "، تو میں نےکہا کہ: "پھر آخر کیوں ہم اپنے دین کو رسوا کریں؟ (اوران کفار سے صلح کریں)"، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک میں اللہ کا رسول ہوں اور میں اس کی نافرمانی نہیں کروں گا جبکہ وہ میرا مددگار بھی ہے"،میں نے کہا : کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی ہمیں یہ خبر نہیں دی تھی کہ ہم بیت اللہ جائیں گے اور طواف کریں گے ؟، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کیوں نہیں ، لیکن کیا میں نے تمہیں کہا تھا کہ ہم اسی سال بیت اللہ جائیں گے؟" میں نے کہا : نہیں ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" بیشک تم بیت اللہ جاؤ گے اور اس کا طواف کرو گے"، عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : پھر میں ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس گیا اور میں نے کہا: اے ابو بکر ! کیا یہ اللہ کے سچے نبی نہیں ؟، ابو بکررضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیوں نہیں ، میں نے کہا : کیا ہم حق پر اور ہمارے دشمن باطل پر نہیں ؟، انہوں نے کہا : کیوں نہیں ، میں نے کہا: تو پھر آخر کیوں ہم اپنے دین کو رسواکریں ؟، تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے آدمی!، بیشک وہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، اور وہ کسی حال میں بھی اللہ تعالی کی معصیت کا ارتکاب نہیں کریں گے، تم اپنے آپ کو ان کے سپرد کردو، اللہ کی قسم وہ حق پر ہی ہیں۔ میں نے کہا : کیا انہوں نے ہمیں یہ نہیں بیان کیا تھا کہ ہم بیت اللہ آئیں گے اور اس کا طواف کریں گے؟، تو ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:کیوں نہیں ، لیکن کیا انہوں نے یہ فرمایا تھا کہ ہم اسی سال طواف کریں گے؟، میں نے کہا :نہیں، تو ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو پھر بیشک آپ عنقریب بیت اللہ جائیں گے اور اس کا طواف بھی کریں گے"۔ عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : (بعد میں اپنی غلطی کااحساس ہوجانے کے بعد) میں نے اس کی تلافی کے لئے بڑے بڑے اعمال خیر انجام دئے"[1]۔یعنی عمر رضی اللہ عنہ سے ابتدائی طور پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی انجام دہی میں جو کوتاہی ہوئی اس کی تلافی کے لئے عمر رضی اللہ عنہ نے بہت سے نیک اعمال انجام دئے، اور اس واقعہ میں دو متضاد کیفیات بیان ہوئی ہیں ، ایک کیفیت عمر رضی اللہ عنہ کی ہے جو کہ دینی غیرت اور جوش و جذبات پر مبنی ہونے کے ساتھ ساتھ مذکورہ معاملہ میں علم کی ناپختگی و عدم رسوخ پر مبنی ہے، جبکہ دوسری کیفیت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی ہے جو کہ شرعی علم اور وحی الہی کے ساتھ ڈٹ جانے والے کی کیفیت ہے جبکہ در حقیقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابو بکر صدیق دین کے معاملہ میں عمر رضی اللہ عنہ سے زیادہ جذبات رکھتے تھے، اور پھر صلح حدیبیہ کے بعد اللہ تعالی نے یہ آیات نازل فرمائیں:[اِنَّا فَتَحْنَا لَكَ فَتْحًا مُّبِيْنًا](سورۃ الفتح : 1) ترجمہ: "(اے نبی!) ہم نے آپ کو واضح فتح عطا کردی" ۔اسی لئے عمر رضی اللہ عنہ نے اس واقعہ کے بعد اپنے آپ سے یہ کہا کہ: "تیری ماں تجھے گم پائے اے عمر!تو نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تین بار مخاطب کرنے کی کوشش کی لیکن بارگاہ نبوت سے تجھے کوئی جواب نہیں ملا !"، پھر میں نے اپنے اونٹ کو
[1] صحیح بخاری (کتاب الشروط، 2581)