کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 94
کی وضاحت فرماچکے ہیں کہ : "بعض انداز بیان میں بڑی جادوگری ہوتی ہے" [1]، لہذا کسی فضول گو، گپیں مارنے والے اور بے تکان بولنے والے کی چکنی چپڑی باتوں سے دھوکہ نہ کھائیں بلکہ :[ فَلِذٰلِكَ فَادْعُ ۚ وَاسْتَقِمْ كَمَآ اُمِرْتَ ۚ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَاۗءَهُمْ ۭ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ ]ترجمہ: لہٰذا آپ اسی دین کی دعوت دیجئے اور جو آپ کو حکم دیا گیا ہے اس پر ڈٹ جائیے۔ اور ان کی خواہشات پر نہ چلیے اور کہہ دیجئے کہ : ’’میں اس کتاب پر ایمان لایا جو اللہ نے نازل کی ہے‘‘۔
4 جذبات کے غلبہ میں نصوص وحی کو رد کرنا:
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ مومنین کی حمایت اور محبت اور ان کے لئے غیرت رکھنا ایک مسلمان کا دینی فرض ہے ، اس کے دین کا یہ تقاضا ہے کہ وہ مومنین کی حمایت ونصرت کرے اور گروہِ شیطان سے دشمنی رکھے، مومن اللہ ہی کے لئے محبت کرتا ہے اور اللہ ہی کے لئے بغض کرتا ہے، لیکن اس معاملہ میں یہ بات ذہن نشین ہونی چاہئے کہ شریعت میں جذبات کا درجہ علم وعقل کے بعد ہے ، اگر ہم نے جذبات کو علم وعقل پر مقدم کردیا تو ہمارے منہج میں بہت بڑا بگاڑ پیدا ہوجائے گا، اور اس حوالہ سے آپ اللہ تعالی کے اس فرمان پر غور کریں کہ: [اَلَمْ تَرَ اِلَى الْمَلَاِ مِنْۢ بَنِىْٓ اِسْرَاۗءِ يْلَ مِنْۢ بَعْدِ مُوْسٰى ۘ اِذْ قَالُوْا لِنَبِىٍّ لَّهُمُ ابْعَثْ لَنَا مَلِكًا نُّقَاتِلْ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ ۭقَالَ ھَلْ عَسَيْتُمْ اِنْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِتَالُ اَلَّا تُقَاتِلُوْا ۭ قَالُوْا وَمَا لَنَآ اَلَّا نُقَاتِلَ فِيْ سَبِيْلِ اللّٰهِ وَقَدْ اُخْرِجْنَا مِنْ دِيَارِنَا وَاَبْنَاۗىِٕنَا ۭ فَلَمَّا كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقِتَالُ تَوَلَّوْا اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْهُمْ ۭ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌۢ بِالظّٰلِمِيْنَ ]
ترجمہ: " کیا آپ نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کے معاملہ پر بھی غور کیا؟ جب انہوں نے اپنے نبی سے کہا کہ’’ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر دو تاکہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد کریں‘‘ نبی نے ان سے کہا : ’’کہیں ایسی بات نہ ہو کہ تم پر جہاد فرض کر دیا جائے اور تم لڑنے سے انکار کر دو۔‘‘وہ کہنے لگے : ’’یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم اللہ کی راہ میں جہاد نہ کریں جبکہ ہمیں ہمارے گھروں سے نکال کر بال بچوں سے جدا کر دیا گیا ہے۔ پھر جب ان پر جہاد فرض کیا گیا تو ماسوائے چند آدمیوں کے سب ہی (اپنے عہد سے) پھر گئے اور اللہ (ایسے) ظالموں کو خوب جانتا ہے‘‘۔ آپ ملاحظہ فرمائیں اللہ تعالی آپ کو اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرمائے ، کہ جذبات سے مغلوب ہوجانے کے کیا نتائج برآمد ہوئے ، " ماسوائے چند آدمیوں کے سب ہی (اپنے عہد سے) پھر گئے!"، اور جہاد کے لئے طالوت جب لشکر لے کر نکلے تو چند ہی لوگ ثابت قدم رہے (البتہ یہ ایک الگ بات ہے کہ) اللہ تعالی کے اذن سے وہ چھوٹی جماعت بڑی جماعت پر غالب آگئی ۔
اسی طرح مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ سے صلح حدیبیہ کے متعلق مروی حدیث میں ذکر ہے کہ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا کہ : کیا آپ اللہ کے سچے نبی نہیں ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "کیوں نہیں" ،
[1] صحیح بخاری (کتاب النکاح : 4851)