کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 93
موزوں کا نچلا حصہ اوپر والے حصہ سے زیادہ مناسب ہوتا"[1]۔ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "مجھے ایسے لوگوں پر تعجب ہوتا ہے جو احادیث کی اسانید اور ان کی صحت کا علم رکھنے کے باوجود سفیان رحمہ اللہ (وغیرہ ) کی رائے کو اپناتے ہیں ، اور اللہ تعالی فرمارہا ہے کہ:[ فَلْيَحْذَرِ الَّذِيْنَ يُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖٓ اَنْ تُصِيْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ يُصِيْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ]ترجمہ: "لہذا جو لوگ رسول کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس بات سے ڈرنا چاہئے کہ وہ کسی فتنہ میں گرفتار نہ ہو جائیں یا انہیں کوئی درد ناک عذاب پہنچ جائے"۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ فتنہ کیا ہے؟، فتنہ سے مراد شرک ہے، کیوں کہ جب وہ (اپنی یا کسی اور کی رائے کی بنیاد پر) اللہ تعالی کے کسی حکم کو ٹھکرائے گا تو بہت ممکن ہے کہ اس کے دل میں ٹیڑھ پن آجائے اور پھر وہ اسی سبب سے ہلاک ہو جائے "۔ وحی کو اپنی رائے سے ٹکرانے کے جو اسلوب ہیں ان میں سے ایک طریقہ وعظ و بیان اور خطابت کا بھی ہے، آپ دیکھیں گے کہ بعض لوگوں کا انداز بیان بہت عمدہ ہوتا ہے اور اسی انداز کا سہارا لے کر وہ قرآن وحدیث کو اس طرح رد کرتے چلے جاتے ہیں کہ باطل کو حق اور حق کو باطل میں بدل دیتے ہیں، اور اللہ تعالی نے اس اسلوب کے حوالہ سے ہمیں متنبہ فرمایا ہے کہ: [يُوْحِيْ بَعْضُهُمْ اِلٰى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا ]ترجمہ:" اور ایک دوسرے کو چکنی چپڑی باتوں کا وسوسہ ڈالتے رہتے ہیں تاکہ خود کو دھوکہ میں ڈال دیں " اس لئے کہ باطل ہمیشہ ملمع سازی اور تزئین وآرائش کا محتاج رہا ہے ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:[وَلَتَعْرِفَنَّهُمْ فِيْ لَحْنِ الْـقَوْلِ]ترجمہ: "آپ انہیں ان کے انداز کلام ہی سے پہچان لیں گے"، اور صحیح بخا ری و مسلم میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ : ہذیل قبیلہ کی دو عورتوں میں لڑائی ہوگئی تو ایک عورت نے دوسری کو پتھر دے مارا جس سے وہ عورت اور اس کے پیٹ میں جو بچہ تھا دونوں فوت ہوگئے ، تو ان لوگوں نے یہ معاملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت میں پیش کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ (عورت کی دیت کے ساتھ ساتھ ) مرنے والے بچہ کی دیت بھی ادا کرنی ہوگی اور وہ ایک غلام مرد یا عورت کی صورت میں ہوگی ، اور عورت کی دیت کی ذمہ داری مارنے والی عورت کے رشتہ داروں کے ذمہ ہوگی جبکہ مقتولہ کے بچے اور اس کے ننھیالی رشتہ داروں کو اس دیت کا وارث ٹھہرایا، تو اس موقعہ پر حمن بن نابغہ ہذلی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میں ایسے بچے کی دیت کیوں ادا کروں جس نے نہ کھایا نہ پیا، نہ بولا نہ چلایا، بلکہ ایسے کی دیت کو تو ٹالا جاتا ہے" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ اپنی قافیہ بندی والی گفتگو میں مہارت کی وجہ سے کاہنوں کا بھائی ہے" [2]۔تو نصوص قرآن وحدیث کو رد کرنے کے لئے اس طرح کا اسلوب جاہلوں کو ہی اپنا ہمنوا بنا سکتا ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس بات
[1] سنن ابو داود (162) [2] صحیح بخاری (کتاب الطب: 5426)