کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 92
جس کا فائدہ اس کے نقصان سے زیادہ ہو، اور اکثر وبیشتر ایسا ہوتا ہے کہ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ چیز دین و دنیا میں فائدہ مند ہے جبکہ در حقیقت اس کا نقصان اس کے نفع سے بڑھ کر ہوتا ہے [1]،جیسا کہ اللہ عزوجل نے شراب اور جوا کے بارے میں فرمایا: [قُلْ فِيْهِمَآ اِثْمٌ كَبِيْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ ۡ وَاِثْـمُهُمَآ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا] (البقرۃ :219) ترجمہ: "آپ ان سے کہیے کہ ان دونوں کاموں میں بڑا گناہ ہے۔ اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں۔ مگر ان کا گناہ ان کے نفع کے مقابلہ میں بہت زیادہ ہے"[2]۔ عصر حاضر کے ایک جید عالم دین کا کہنا ہے کہ: "لفظ "مصلحت" کو داعیان دین کی ڈکشنری سے نکال دینا چاہئے کیونکہ یہ شیطان کا بہکاوا ہے اور یہیں سے وہ ان افراد کے منہج میں بگاڑ پیدا کرتا ہے، وہ دعوت دین کی مصلحت کا دروازہ اس لئے استعمال کرتا ہے کیونکہ دعوت دین کا کام کرنے والے افراد عموما ًانفرادی مصلحتوں کی پروا نہیں کرتے، اور کبھی کبھی تو یہ دعوتی مصلحت ایک بت کی حیثیت اختیار کرجاتی ہے جہاں مبلغ دین اپنا ماتھا ٹیکتے نظر آتے ہیں ، اور وہ اس کھرے اور حقیقی منہج کو فراموش کر بیٹھتے ہیں جس کی بنیاد کتاب اللہ ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سلف صالحین کی فہم و فراست ہوتی ہے، جبکہ ان اصحاب دعوت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اسی کھرے منہج پر ڈٹے رہیں ، کیونکہ ان حضرات کے لئے سب سے بڑا خطرہ جس سے ان کو بچنا ہے وہ اس منہج سے انحراف کا ہے، چاہے اس انحراف کا سبب کچھ بھی ہو اور چاہے یہ انحراف کم ہو یا زیادہ، اور یقینا اللہ تعالی کو مصلحت کا ان حضرات سے زیادہ علم ہے، اور اللہ نے انہیں مصلحت پسندی کا مکلف نہیں بنایا ہے ، بلکہ وہ تو محض ایک ہی چیز کے مکلف ہیں کہ وہ صحیح منہج پر ڈٹے رہیں اور سیدھی راہ پر گامزن رہیں ۔ 3 وحی کو رائے اور عقل کے ذریعہ رد کردینا: اس عمل کو قیاس فاسد کہا جاتا ہے ، اس لئے فقہا کہتے ہیں : "قرآن و حدیث کی موجودگی میں قیاس کی گنجائش نہیں"، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں پہلے ہی اس بات سے آگاہ فرمادیا ہے کہ قرب قیامت ایسے لوگ آئیں گے جو قرآن وحدیث کو اپنی رائے سے ٹکرائیں گے، عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "بیشک اللہ تعالی علم کو بندوں سے چھین کر قبض نہیں فرماتا ، بلکہ اللہ تعالی علماء کو قبض فرما کر علم کو قبض کرلیتا ہے، یہاں تک کہ جب کوئی عالم نہیں بچے گا تو لوگ جاہلوں کو اپنا پیشوا بنالیں گے، پھر ان سے فتوی پوچھا جائے گا تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے"[3]۔اور علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : اگر دین عقل اور رائے کا نام ہوتا تو پھر مسح کے لئے
[1] جیسا کہ مصلحت کا تقاضا سمجھتے ہوئے کچھ مسلمان ممالک دیگر مسلمان ممالک میں برپا ظلم و ستم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔ مصلحت کا تقاضا خیال کرتے ہوئے اہل بدعت سے ہاتھ ملائے جاتے ہیں ، مصلحت ہی کا تقاضا بیان کرکے سود کو اسلامی معاشرہ پر تھوپا جاتا ہے، اور نجانے ایسی کتنی خلاف شریعت مصلحتیں ہیں جن کا آج کل کے مسلمان شکار ہیں۔ [2] مجموع فتاوی ابن تیمیہ (11/344) [3] صحیح بخاری ، کتاب العلم (100)