کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 91
شاگردوں میں سے ہیں فرماتے ہیں کہ : " معاذ بن جبل جب بھی کسی علمی مجلس میں تشریف رکھتے تو فرماتے :" اللہ تعالی حاکم ہے اور انصاف قائم کرنے والا ہے ، شک میں پڑنے والے ہلاک ہوگئے"، ایک دن معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "بے شک تمہارے پیچھے بہت سے فتنے آنے والے ہیں جس میں مال کی کثرت ہوگی اور اور قرآن عام ہو جائے گا،یہاں تک کہ وہ مؤمن اور منافق، مرد و عورت، چھوٹا اور بڑا، آزاد اور غلام سب کی دسترس میں ہوگا، پھر ممکن ہے کہ کوئی کہنے والا یہ بات کہے کہ:" آخر لوگ میرے پیچھے کیوں نہیں چلتے جبکہ میں نے قرآن پڑھ رکھا ہے؟، یہ میرے پیچھے اس وقت ہی چلیں گے جب میں قرآن کے علاوہ کوئی اور نئی بات لے کر آؤنگا"، خبردار اس کی نئی بات سے بچنا، کیونکہ اس کی یہ نئی بات یقیناً گمراہی ہے ، اور تم نیک اور دانا آدمی کی غلطی سے بھی متنبہ رہو، کیونکہ شیطان کبھی کبھار نیک و دانا آدمی کی زبان سے بھی گمراہی کا کلمہ نکلوا سکتا ہے، اور کبھی کبھار منافق بھی کلمہ حق کہہ سکتا ہے"، یزید بن عمیرہ فرماتے ہیں : میں نے پوچھا کہ : "مجھے کیوں کر معلوم ہوسکتا ہے کہ نیک و دانا آدمی نے گمراہی کا کلمہ کہا ہے اور منافق نے حق بات کہی ہے؟"، تو معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "کیوں نہیں ! اس نیک و دانا شخص کی ان باتوں سے بچو جس میں اس کی انفرادیت معروف ہو اور دیگر علماء اس پر سوال اٹھاتے ہوں کہ یہ اس نے کیسی بات کہی ہے؟، البتہ یہ اجتناب صرف اسی حد تک ہونا چاہئے اور اس وجہ سے اس سے تعلق ختم نہیں کرنا، کیونکہ ممکن ہے کہ وہ اپنی اس رائے سے رجوع کر لے ، اور جہاں سے بھی حق سنو اسے حاصل کرلو کیونکہ حق (کی نشانی ہے کہ اس ) پر نور ہوتا ہے"[1]۔یہ اثر اس بات کی دلیل ہے کہ کبھی کبھی انسان کتاب و سنت اور آثار سلف صالحین سےیہ بہانہ کر کے بے رغبتی کی راہ تلاش کرتا ہے لوگ ان سب سے بیزار ہو چکے ہیں ، اور لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا ضروری ہے!، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : جامع ترین بات یہ ہے کہ شریعت میں کسی بھی مصلحت کو ترک نہیں کیا گیا بلکہ اللہ تعالی نے اس دین کو ہمارے لئے مکمل فرمادیا ہےاور اپنی نعمت ہم پر پوری کردی ہے ، اب کوئی بھی ایسا عمل باقی نہیں رہا جو ہمیں جنت سے قریب کرتا ہو اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس کی خبر نہ کی ہو، بلکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایسے روشن راستہ پر لا کھڑا کیا ہے جس کا دن اور رات برابر ہیں ، اور اس راستہ سے وہی شخص کج روی اختیار کرسکتا ہے جو خود کو ہلاکت میں ڈالنا چاہے، لیکن اگر کبھی ایسا ہو کہ کسی چیز کو عقل تو مصلحت تسلیم کرے لیکن شریعت میں اس کا تذکرہ نہ ملے تو یہاں دو باتوں میں سے ایک بات تو لازم ہے(۱) یا تو شریعت میں بھی اس چیز کی مصلحت کو تسلیم کیا گیا ہے لیکن یہ شخص اس کی شرعی دلیل سے ناواقف ہو(۲) یا پھر وہ چیز سرے سے مصلحت ہی نہیں ہوگی اگرچہ سطحی نظر سے وہ چیز بھلے ہی مصلحت معلوم ہو، کیونکہ مصلحت اس چیز کو کہتے ہیں
[1] سنن ابو داود : کتاب السنۃ (4611)