کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 90
اور یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ بدعات میں کسی قسم کی تفریق کرنا جیسا کہ بدعت حسنہ اور بدعت سیئہ کی تقسیم کی جاتی ہے یہ جائز نہیں، اس تقسیم کی کتاب و سنت میں اور آثار صحابہ میں کوئی دلیل نہیں ملتی۔ 2 مصلحت اور شریعت کا موازنہ: نصوص وحی سے رو گردانی کا ایک راستہ شریعت اور مصلحت میں باہم موازنہ کرنے کا بھی ہے ، کتنے ہی لوگ ایسے ہیں جو بالکل صحیح اور ثابت دلائل کو محض " مصلحت کے تقاضے " کی بنیاد پر رد کر دیتے ہیں ، جبکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے : [وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّلَا مُؤْمِنَةٍ اِذَا قَضَى اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗٓ اَمْرًا اَنْ يَّكُوْنَ لَهُمُ الْخِـيَرَةُ مِنْ اَمْرِهِمْ ۭ وَمَنْ يَّعْصِ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِيْنًا ]ترجمہ: " کسی مومن مرد اور مومن عورت کو یہ حق نہیں کہ جب اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا فیصلہ کر دے تو ان کے لئے اپنے معاملہ میں کچھ اختیار باقی رہ جائے اور جو اللہ اور اسکے رسول کی نافرمانی کرے تو وہ یقینا صریح گمراہی میں جا پڑا"، اور صحیح مسلم میں رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، فرماتے ہیں : " ایک دن ہمارے ایک چچا ہمارے گھر آئے اور فرمانے لگے : " آج اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں ایک کام سے منع فرما دیا ہے جو کام ہمارے لئے کافی نفع بخش تھا [1]، لیکن اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہمارے لئے زیادہ فائدہ مند ہے"[2]،اس جلیل القدر صحابی نے اپنے ذاتی فائدہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت کی وجہ سے چھوڑ دیا، اور تمام سلف صالحین کا یہی عالم تھا ، وہ بلا استثنا شریعت کے چھوٹے بڑے تمام احکامات پر ایمان لاتے تھے، اور اس شخص کی طرح نہیں تھے جو محض اپنی خواہشات کا پرستار ہو، اگر شریعت کا حکم اس کی خواہش کے مطابق ہے تو اسے قبول کر لے اور اگر اس کی خواہش کے منافی ہے تو اسے ٹھکرا دے، اللہ تعالی کا فرمان ہے: [ اَفَكُلَّمَا جَاۗءَكُمْ رَسُوْلٌۢ بِمَا لَا تَهْوٰٓى اَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ ۚفَفَرِيْقًا كَذَّبْتُمْ ۡوَفَرِيْقًا تَقْتُلُوْنَ] (البقرۃ 87) ترجمہ: "لیکن جب کبھی تمہارے پاس رسول وہ چیز لائے جو تمہاری طبیعتوں کے خلاف تھی، تم نے جھٹ سے تکبر کیا، پس بعض کو تو جھٹلا دیا اور بعض کو قتل بھی کر ڈالا" ، بلکہ سلف صالحین کی خواہشات بھی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کے تابع تھیں ، امام ابو داود صحیح سند کے ساتھ ابو ادریس خولانی رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں کہ یزید بن عمیرہ رحمہ اللہ جو کہ معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے
[1] یہ زراعت سے متعلق ایک کام تھا جس میں زمین کو ٹھیکہ پر دیا جاتا تھا ، اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس لئے منع فرمایا کہ اس وقت غربت زیادہ تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص خود زراعت کر سکتا ہو وہ خود کرے اور جس کے پاس زمین وافر ہے اور وہ پوری زمین پر کاشت کاری نہیں کر سکتا تو وہ باقی زمین اپنے کسی بھائی کو بغیر کسی معاوضہ کے دیدے تا کہ وہ اس پر محنت کر کے اپنے گھر والوں کے لئے کچھ کما سکے ، البتہ بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے چند شرعی حدود وقیود کے ساتھ زمین کو ٹھیکہ پر دینے کی اجازت مرحمت فرمادی تھی ۔(مترجم) [2] صحیح مسلم کتاب البیوع (1548)