کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 86
تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے جانثار ساتھی ابھی کتنی کثرت سے موجود ہیں ، یہ تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑے جو ابھی پرانے نہیں ہوئے اور ان کے برتن بھی ابھی تک موجود ہیں ، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! یا تو تم ایسے طریقہ پر ہو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقہ سے زیادہ ہدایت والا ہے یا پھر تم گمراہی کا دروازہ کھولنے والے ہو" ، وہ لوگ کہنے لگے : اے ابو عبدالرحمن ! اللہ کی قسم ہمارا ارادہ تو محض خیر اور نیکی کا تھا!، تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جن کا ارادہ تو خیر کا ہوتا ہے لیکن خیر سے وہ محروم ہی رہتے ہیں ، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اپنے فرامین کے ذریعہ پہلے ہی متنبہ فرما دیا تھا کہ ایسی اقوام آئیں گی جو قرآن مجید پڑھیں گی لیکن وہ قرآن ان کے حلق سے نیچے (دل تک ) نہیں جائے گا (بلکہ زبان تک ہی رہے گا) ، اور اللہ کی قسم میں نہیں جانتا شاید تم میں سے اکثر لوگ بھی ویسے ہی ہوں "، پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ان سے منہ موڑ کر چلے آئے ۔ عروہ بن سلمہ رضی اللہ عنہ جو کے اس حدیث کے راوی ہیں وہ فرماتے ہیں : ہم نے جنگ نہرو ان [1] کے دن ان میں سے اکثریت کو اپنے مخالف(خارجی) لشکر ہی میں دیکھا تھا"۔ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی یہ اثر بدعت اور اہل بدعت کی خطرناکی کو واضح کر رہا ہے اور ان کے انجام سے بھی آگاہ کر رہا ہے کہ بالآخر یہ اہل بدعت ، اہل توحید ہی کے خلاف کمر بستہ ہو جاتے ہیں ، اور یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ تمام بڑی بدعات ،چھوٹی چھوٹی بدعات ہی سے جنم لیتی ہیں۔
[1] جنگ نہروان سے مراد وہ جنگ ہے جو 38 ہجری میں علی رضی اللہ عنہ نے خوارج کے خلاف لڑی تھی ۔