کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 84
رکھی جاتی ، لیکن سچ تو یہ ہے کہ یہ بدعت اس کے ذہن وقلب میں ایک خلفشار پیدا کردیتی ہے اور دین میں بگاڑ پیدا کردیتی ہے ، اور اس فساد و بگاڑ کی جڑ یہ ہے کہ وہ بدعتی اپنے تئیں یہ سمجھنے لگتا ہے کہ شریعت میں اس کے لئے کوئی خاص فائدہ والی بات نہیں ہے ، اور اس( سوچ کی ) وجہ یہ ہے کہ اصل اور نقل دونوں ایک دل میں یکجا نہیں ہوسکتے(یعنی یا تو شریعت رہے گی جو کہ اصل ہے یا بدعت رہے گی)"۔
اہل مغاربہ (یعنی مراکش ، تیونس وغیرہ ) کے ایک عالم نے بڑی قابل غور بات کی ہے ، فرماتے ہیں : " نوجوانوں کا ایسی کتابوں سے نظریاتی سیرابی حاصل کرنا، سلف صالحین کے پاکیزہ علم ومنہج سے استفادہ سے محروم کردیتا ہے جوکتابیں قرآن وحدیث اور آثارِصحابہ سے کشید کردہ صحیح علم پر مبنی نہ ہوں بلکہ محض تجربہ اور شخصی افکار پر مرتب ہوں ، کیونکہ دو متضاد چیزوں کا یکجا ہونا ممکن نہیں ، اور ہم دیکھتے ہیں کہ نظریاتی بیماری کی علامات آہستہ آہستہ ان پر ظاہر ہونا شروع ہوتی ہیں ، تو (سب سے پہلے) وہ تنہاپسند ی کا شکار ہوجاتے ہیں جسے وہ بزعم خود معاشرے سے ہجرت کرجانا یا کنارہ کشی اختیار کرنا قرار دیتے ہیں، پھر وہ مساجد میں آنا اور ان اماموں کی اقتداء میں نماز ادا کرنے چھوڑ دیتے ہیں جنہیں وہ حکومت کا ملازم خیال کرکے حکومت کا ایجنٹ سمجھتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ تو حکومت سے تنخواہ لیتا ہے، جبکہ در حقیقت یہ سب شیطان کی چالیں ہیں تاکہ وہ آگے چل کر انہیں سب سے بڑے فتنہ میں ڈال دے، اور ابھی چند ماہ یا سال ہی گزرتے ہیں کہ بیماری اپنی گرفت مکمل کر لیتی ہے اور یہ لوگ حکام کو اور جو بھی ان حکام کے ساتھ ہیں سب کو کافر قرار دینا شروع کردیتے ہیں ، پھر یہ بیماری مزید بڑھتی ہے اور یہ لوگ پورے معاشرہ ہی کو کافر قرار دیتے ہیں ، اور اس وقت یہ نادان لوگ اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ ایسا کر کے وہ درحقیقت یہود و نصاری جیسے دشمنان دین کا بھلا کر رہے ہیں ، اور پھر انہی کی وجہ سے کسی بھی شہر اور ملک میں دعوت دین ابھی ابتدائی مرحلہ میں ہوتی ہے کہ اس کا گلا گھونٹ دیا جاتا ہے اور دور حاضر میں حقیقت حال اس بات کی شاہد ہے[1]۔
[1] یہ بات بہت قابل غور اور فکر انگیز ہے۔ ہمارے معاشرے میں بھی کم و بیش یہی صورتحال ہے کہ دعوت دین ویسے ہی انتہائی نامساعد حالات کا شکار ہے، اہل علم کی قلت اور وسائل کی کم یابی کے باعث دعوت دین کا کام بہت ماند ہوچکا ہے، ایسے میں چند نوجوان جو کہ اچھی نیت سے دینداری کی جانب راغب ہوتے ہیں وہ نادانی میں اہل بدعت کی ایسی کتابوں کا مطالعہ کر بیٹھتے ہیں جن میں توحید حاکمیت کو دین کی اساس ، حکام کے خلاف خروج کو دین کی معراج اور خلافت کے قیام کو دین کا بنیادی مقصد قرار دیا گیا ہوتا ہے، پھر یہ نوجوان فرط جذبات میں آکر نفاذ شریعت کا نعرہ لگا کر ایسی نادانیاں کر بیٹھتے ہیں کہ نتیجتاً دعوت دین کا کام ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔جبکہ یہ نوجوان جس شریعت کے لئے کوشاں ہوتے ہیں بسا اوقات اس شریعت سے ان کی اپنی لاعلمی کی کیفیت یہ ہوتی ہے کہ شریعت کے تفصیلی احکام مسائل تو دور کی بات ، شریعت کے بنیادی عقائد سے بھی وہ ناواقف ہوتے ہیں ، شرک و توحید جیسے اہم عقائد کے متعلق بھی ان کا علم محض سطحی ہوتا ہے۔ ان نوجوانوں کا تکفیر و خروج جیسی خطرناک بدعات کا شکار ہونے کا بنیادی سبب بھی یہی ہے کہ وہ شریعت کی اہم مصلحتوں ، تقاضوں اور منہج سلف صالحین سے نابلد ہوتے ہیں۔(مترجم)