کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 83
قال رحمه اللّٰه تعالى:" واعلم أن الناس لم يبتدعوا بدعة قط حتى تركوا من السنة مثلها، فاحذر المحدثات من الأمور، فإن كل محدثة بدعة، وكل بدعة ضلالة، والضلالة وأهلها في النار "۔ مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیجئے کہ لوگ اس وقت تک بدعت کو اختیار نہیں کرتے جب تک وہ اس بدعت ٍکے مثل کوئی سنت ترک نہ کردیں ، لہذا آپ دینی معاملات میں نئی نئی چیزوں سے ہوشیار رہیں ، کیونکہ (دین میں ) ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہ شخص اپنی گمراہی سمیت جہنم کا ایندھن بنے گا"۔ بدعات ،سنت سے محرومی کا باعث ہیں شرح و وضاحت ابو اسماعیل ہروی اپنی کتاب "ذم الکلام واھله"(کلام اور اہل کلام کی مذمت) میں حسان بن عطیہ رحمه الله کا یہ قول ذکر کرتے ہیں کہ: "جب بھی کسی قوم نے کسی بدعت کو اختیار کیا تو اللہ تعالی نے ان سے اس بدعت کے باعث سنت کو ان سے اٹھا لیا اور پھر تا قیامت وہ اس سنت پر عمل کرنے سے محروم رہی"۔ اسی طرح امام اوزاعی رحمہ اللہ کا قول بھی ذکر کرتے ہیں کہ (انہوں نے اہل بدعت سے کہا) : "تم کسی بدعت کو اس وقت تک نہیں چھوڑتے جب تک کہ تم اس سے زیادہ بڑی اور خطرناک بدعت کو گلے نہ لگا لو"۔ نیز سفیان ثوری رحمہ اللہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے کہ:"ابلیس کو گناہ سے کہیں بڑھ کر بدعت محبوب ہے ، کیونکہ گناہ سے توبہ کا امکان ہے ، بدعت سے توبہ کا امکان نہیں ہے"۔اسی طرح ارطاۃ بن منذر السکونی کا قول بھی لائے ہیں کہ وہ فرماتے ہیں : "اے ابو یحمد ! میرا بیٹا اگر گناہ گار ہو تو مجھےاتنا دکھ نہ ہوگا جتنا دکھ اس بات سے ہوگا کہ وہ (دیندار ہو لیکن ) بدعتی ہو"۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ان لوگوں پر شدید رد فرمایا ہےجن کے نزدیک اصلاح نفس کے لئے قرآن سننا اور قصیدہ گوئی دونوں یکساں مفید ہیں ، شیخ الاسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "اسی وجہ سے شریعت میں بدعتی پر سخت وعید اور شدید رد کیا گیا ہے ، کیونکہ مبتلائے بدعت شخص کی کیفیت اگر اتنی بھی ہو کہ وہ محض اسی بدعت تک محدود رہے تو بھی شاید اس معاملہ میں نرمی روا