کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 77
پھر کتب جرح وتعدیل کے بعد ایسی کتب منظر عام پر آئیں جن میں علماء نے راویوں کے حوالہ سے اپنے مشائخ سے سوالات کئے اور انہیں درج کیا ، ابو عبید آ جری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : میں نے امام ابو داود رحمہ اللہ سے عبدالرحمن بن عبداللہ العمری کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا: “اس کی حدیث کو نہیں لکھنا چاہئے" ، اور (ابو عبید ) فرماتے ہیں : میں نے امام ابو داود رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : خالد بن عمرو سعیدی کا روایت حدیث میں کوئی مقام نہیں "۔ اور ابو عبید فرماتے ہیں : میں نے امام ابو داود رحمہ اللہ سے عبدالقدوس شامی کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا: "اس کا روایت حدیث میں کوئی مقام نہیں ، اور اس کا بیٹا اس سے بھی گیا گزرا ہے"۔ علماء و محدثین کی ان راویوں پر تنقید محض ایک دینی جذبہ کے تحت تھی جس کا تقاضا یہ ہے کہ ان راویوں کو(روایت حدیث کے حوالہ سے )اسی مقام پر رکھا جائے جو ان کے لائق ہے، اور یہ تنقید محض اقرار حق ، امت کی خیر خواہی اور دین قویم کی حمیت میں کی گئی ہے، اور اس حق گوئی میں یہ علماء کسی معترض کی ملامت کو خاطر میں نہیں لائے ، جبکہ مجروحین (جن پر تنقید کی گئی ہے) دیندار اور اہل فضل تھے(اس کے باوجود روایت حدیث میں ان کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی تاکہ حق وباطل میں تمیز ہوجائے)، اور اگر کوئی شخص کتب تاریخ وسیرت کے اوراق پلٹے تو وہ ان مجروحین کے بھی ایسے ایسے عالی قدر اوصاف کی بھرمار پائے گا جن سے عصر حاضر کے(عقیدہ وحدیث کے ) مخالفین کے اخلاق یتیمی کا ماتم کر رہے ہوں گے۔ ہماری اس گفتگو سے ہرگز بھی یہ اخذ نہ کیا جائے کہ ہم اہل بدعت اور گناہگار مسلمانوں کی نیکیوں کو بیکار و بے ثمر قرار دے رہے ہیں ، جیسا کہ بعض لوگ (یہی مطلب اخذ کرکے ) اچھل کود کرتے ہیں اور منہج سلف صالحین پر گامزن داعیان اسلام پر زبردستی اس معنی کو تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں ، بلکہ ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ ان اہل بدعت کی نمازیں، ان کے روزے ،زکوۃ ، حج ، اور دیگر نیک اعمال سے ان کوفائدہ ضرور پہنچے گا، اور روز قیامت ان کا معاملہ اللہ عزوجل کے سپرد ہے، البتہ داعی حق پر یہ لازم ہے کہ وہ لوگوں کو ان کی بدعت اور غلطیوں سے متنبہ کرتا رہے۔