کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 76
قبول کرلے اور غلطیوں سے صرف نظر کرے، اور اس طرح وہ اصل (مقصد) ہی ضائع ہوجاتا ہے جس کے لئے (کسی پر ) رد اور (اندرونی معاملہ کا ) بیان جائز کیا گیا ہے [1]۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی بیوی ہند رضی اللہ عنہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور فرمانے لگیں : ابو سفیان رضی اللہ عنہ کی طبیعت میں کچھ بخیلی ہے ، وہ مجھے اتنا خرچہ نہیں دیتا جو میرے اور میرے بچے کے لئے کافی ہو، جب تک کہ میں ان کی لاعلمی میں ان کے مال سے کچھ نہ لے لوں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہارا اور تمہارے بچے کا جو مناسب خرچہ ہو اتنا لے لیا کرو"[2]۔اس حوالہ سے اور بھی بہت سے نصوص ہیں ، جن کے مقابلہ میں ذکر کردہ دلائل تو محض سمندر کے چند قطرے ہیں۔ کتب الجرح والتعدیل سے دلائل: جہاں تک کتب جرح وتعدیل کی بات ہے تو وہ تو اس قسم کی مثالوں سے بھری پڑی ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں: 1۔ ابراہیم بن یزید نخعی: ان کے متعلق امام شعبہ فرماتے ہیں : "یہ مسروق رحمہ اللہ سے روایت کرتے ہیں لیکن انہوں (ابراہیم نخعی ) نے ان سے کوئی روایت سنی نہیں ہے“۔اور امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " ان کی عربی بہت قوی نہیں تھی اور وہ کبھی کبھار اس میں غلطی کر جاتے تھے، اور محدثین نے ان کے اس قول پر بھی سخت اعتراض کیا ہے جو انہوں نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا تھا کہ: ابو ہریرہ فقیہ نہیں تھے"[3]۔ اب کیا آپ یہ سمجھتے ہیں کہ ابراہیم بن یزید نخعی رحمہ اللہ جو کہ درحقیقت ایک بلند پایہ عالم دین ہیں ، ان کی کوئی خوبیاں ہی نہیں ہیں ، یا ان کاشمار اہل فضل میں سے نہیں ہوتا؟، یقیناً ایسا نہیں ہے لیکن (امام شعبہ رحمہ اللہ اور امام ذہبی رحمہ اللہ ان کی جو خامیاں بیان کررہے ہیں تو) یہاں پر مقام ہی اس بات کا متقاضی ہے کہ صرف راوی کی خامی اور ضعف پر ہی گفتگو کی جائے ، اس کے علاوہ (محاسن یا فضائل ) پر نہیں ۔ 2۔شعیب بن میمون واسطی ، صاحب نیروز: ان کے متعلق ابو حاتم رازی فرماتے ہیں : " یہ مجہول ہیں"، امام بخاری فرماتے ہیں : ان میں ضعف پایا جاتا ہے"، ابن حبان فرماتے ہیں : "یہ مشہور راویوں سے منکر روایت بیان کرتے ہیں"، اور ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "یہ حدیث میں ضعیف ہیں ، البتہ بہت عبادت گزار ہیں " [4]۔
[1] مؤلف رحمہ اللہ کے آخری جملہ کا مقصود یہ ہے کہ مشورہ و نصیحت ان چند معاملات میں سے ہیں جس میں کسی شخص کی غیر موجودگی میں اس کی خامیاں بیان کی جاسکتی ہیں ، اگر مشورہ دینے والا جس کے متعلق مشورہ دے رہا ہے اس کی خامیوں سے صرف نظر کرے گا، تو مشورہ دینے کا مقصد ہی فوت ہوجائے گا۔ [2] صحیح بخاری (کتاب النفقات: 5049) [3] میزان الاعتدال (1/84) [4] تھذیب التھذیب : (2/905)