کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 75
بہت سے اموال غنیمت ہیں۔ اس سے پہلے تمہاری اپنی بھی یہی صورت حال تھی۔پھر اللہ نے تم پراحسان کیا، لہذا تحقیق ضرور کر لیا کرو"۔
فرمان الہی ہے: {مِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الدُّنْيَا وَمِنْكُمْ مَنْ يُرِيدُ الْآخِرَةَ} (آل عمران: 152)، ترجمہ: " تم میں سے کچھ تو وہ تھے جو دنیا چاہتے تھے اور کچھ آخرت چاہتے تھے"۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے: { وَفِيكُمْ سَمَّاعُونَ لَهُمْ } (التوبہ: 47)، ترجمہ: "اور تم میں انکے جاسوس بھی ہیں" [1]۔
سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دلائل :
صحیح بخاری میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " میرا نہیں خیال کہ فلاں اور فلاں ہمارے دین کی کچھ معرفت رکھتے ہیں "۔ لیث بن سعد جو کہ اس حدیث کے ایک راوی ہیں فرماتے ہیں : "یہ دونوں افراد منافقین میں سےتھے"[2]
حافظ ابن حجر فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ: "عنوان باب کا خلاصہ یہ ہے کہ مذکورہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ان دو افراد کے بارے میں جو گمان تھا یہ اس بدگمانی میں سے نہیں ہے جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے، کیونکہ یہاں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان دو افراد سے صحابہ کرام کو متنبہ فرمارہے تھے، کہ کہیں تمہار ا بھی ان جیسا حال نہ ہوجائے، جبکہ بدگمانی تو اس شخص کےمتعلق منع ہے جس کا دین اور عزت سلامت ہو" [3]۔
فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے فرماتی ہیں کہ : میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور میں نے کہا :" ابوجہم رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ نے مجھے نکاح کا پیغام بھیجا ہے "، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "معاویہ مفلس ہے اس کے پاس مال نہیں ، اور ابو جہم تو اپنی لاٹھی کندھے سے اتارتا ہی نہیں ہے"، اور ایک روایت ہے کہ : "وہ تو عورتوں کو بہت زیادہ مارتا ہے" [4]۔
اور یہ بات ہم جانتے ہیں کہ یہ دونوں صحابی نیک وصالح ہیں ، اور ان کی دین داری میں کوئی شک نہیں ہے، اور ان کے بہت سے فضائل ومحاسن ہیں ، لیکن اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات اس لئے فرمائی کہ یہ مقام نصیحت و مشورہ ہے، اور ایسے مقام پر جتنا مشورہ درکار ہوتا ہے اتنی ہی بات کی جاتی ہے اور فضائل ومحاسن نہیں گنوائے جاتے، کیونکہ فضائل ومناقب شمار کرانے سے پیچیدگی پیدا ہوتی ہے اور جو کوتاہی موجود ہے وہ چھوٹی لگتی ہے، اور ممکن ہے کہ سائل صرف محاسن ہی کو
[1] مذکورہ آیات سے مؤلف رحمہ اللہ کی بات کی تائید واضح ہے ، پہلی آیت میں ان افراد پر رد ہے جو خود ساختہ اعمال انجام دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں ، جبکہ دیگر تین آیات میں صحابہ کرام کو خاص طور پر اور دیگر مومنین کو انکی چند کوتاہیوں پر سرزنش کی جارہی ہے اور ان کی غلطیوں اور کوتاہیوں سے انہیں آگاہ کیا جارہا ہے۔
[2] حیح بخاری (کتاب الادب ، 5720)
[3] فتح الباری شرح صحیح بخاری (10/485)
[4] صحیح مسلم (کتاب الطلاق: 1480)