کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 74
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ فرمانا: ’’حسبها هدى‘‘"وہ اس گمراہی کو ہدایت سمجھے "، غالباً انہوں نے اس بات کو اللہ عزوجل کے اس فرمان سے اخذ کیا ہے : {وَيَحْسَبُوْنَ أَنَّهُمْ مُهْتَدُوْنَ}(الاعراف: 30) ترجمہ:"اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہدایت پر ہیں"۔ اور اسی طرح اللہ عزوجل کے اس فرمان سے بھی کہ :{ قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْاَخْسَرِيْنَ اَعْمَالًا اَلَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ اَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا ](الكهف:( [1]
ترجمہ: " آپ ان سے کہئے: ’’کیا ہم تمہیں بتائیں کہ لوگوں میں اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے کون ہیں؟۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر کوششیں دنیا کی زندگی کے لئے ہی کھپا دیں پھر وہ یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں‘‘۔
گمراہی کے حامل شخص کی گمراہی کی وضاحت ، صحیح منہج کی وضاحت ہے۔
(دوسرا مسئلہ) عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اس اثر سے اس جدید قاعدہ کا رد ہوجاتا ہے جس قاعدہ کا مقصد عقیدہ و سنت کے مخالفین پر رد کرنے سے روکنا ہے، کیونکہ رد کرنے کا مقصد کسی کی شخصیت پر ردکرنا نہیں ہوتا بلکہ اس کے ذریعہ دراصل اللہ عزوجل کے راستہ ، شریعت اور منہج کی پاکیزگی مقصود ہوتی ہے ۔ قرآن و حدیث سے اس حوالہ سے چند دلائل آپ کے پیش خدمت ہیں ۔
کتاب اللہ سے دلائل :
فرمان الہی ہے: {قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِيْنَ أَعْمَالًا ۔ الَّذِيْنَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُوْنَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُوْنَ صُنْعًا} (الكهف: 103، 104) ترجمہ: " آپ ان سے کہئے:’’کیا ہم تمہیں بتائیں کہ لوگوں میں اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے کون ہیں؟۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی تمام تر کوشش دنیزا کی زندگی کے لئے ہی کھپا دیں پھر وہ یہ بھی سمجھے بیٹھے ہیں کہ وہ بڑے اچھے کام کر رہے ہیں‘‘۔
اور اللہ عزوجل کا فرمان مبارک ہے: {وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ أَلْقٰى إِلَيْكُمُ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فَعِنْدَ اللّٰهِ مَغَانِمُ كَثِيْرَةٌ كَذٰلِكَ كُنْتُمْ مِنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰهُ عَلَيْكُمْ فَتَبَيَّنُوْا} (النساء: 94)ترجمہ:" اگر کوئی شخص تمہیں سلام کہے تو اسے یہ نہ کہا کرو کہ تم تو مومن نہیں بلکہ اس کی تحقیق کر لیا کرو۔ اگر تم دنیا کی زندگی کا سامان چاہتے ہو تو اللہ کے ہاں
[1] مؤلف رحمہ اللہ کی مراد وہ اصول اور قاعدہ ہے جس پر آج کل کی اکثر دینی جماعتیں عمل پیرا ہیں ، کہ کسی کو چھیڑو نہیں اور اپنے دین کو چھوڑو نہیں ، یعنی کسی کے عقیدہ ، فکر اور عمل کو برا مت کہو چاہے وہ عقیدہ یا عمل کتاب و سنت سے کتنا ہی برعکس و مخالف کیوں نہ ہو، جبکہ عمررضی اللہ عنہ نے اپنے مذکورہ اثر میں یہ بات واضح کردی ہے کہ اگر کوئی شخص گمراہی پر ہوگا چاہے وہ اس گمراہی کو ہدایت ہی کیوں نہ سمجھ رہا ہو ہم اس کا مؤاخذہ ضرور کریں گے اور اس کی اس بدعقیدگی و بدعملی کو یوں ہی برقرار نہیں رہنے دیں گے۔(مترجم)