کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 73
حضرات فوت ہوچکے ہیں (اور ان سے کسی مسئلہ میں سلف صالحین کی مخالفت سرزد ہوئی ہے لیکن وہ غلطی کے درجہ تک ہی ہیں) ان میں امام نووی رحمہ اللہ ، امام ابن حجر رحمہ اللہ ہیں اور سلف صالحین کے زمانہ میں سے امام مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ ہیں جنہوں نے بعض صفات میں تاویل کی ، تو ان حضرات کی سچائی ، امت کے لئے ان کی خیر خواہی اور ان حضرات کا صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اصولوں کی تعظیم کرنا علماءِ امت کے ہاں معروف ہے۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا یہ کہنا:(رکبھا)"وہ اس گمراہی کو ہدایت سمجھ کر اس کا ارتکاب کر لے"، اس میں ایسے اجتہاد کی جانب اشارہ ہے جس میں سنت کی مخالفت کی گئی ہے، اسی کے متعلق شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "لیکن اہل کلام کی پیروی ، کمزور گمان پر مبنی رائے ، اور خواہشاتِ نفس کی اتباع انسان کا مقام گھٹا کر اس حد تک لے آتی ہے جس کا وہ مستحق ہوتا ہے ، چاہے اس طریقہ پر اس کے اجتہادات کا کوئی ثانی نہ ہو ، کیونکہ مقام فضیلت کثرت اجتہاد میں نہیں بلکہ ہدایت اور سیدھی راہ کی اتباع میں ہے، جیسا کہ سلف صالحین سے ایک اثر منقول ہے کہ: " بدعتی جتنا زیادہ اجتہاد کرتا ہے اتنا ہی وہ اللہ عزوجل سے دور ہوتا جاتا ہے"[1]، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خوارج کے متعلق فرمان ہے:"تم میں سے ایک اپنی نماز کو ان کی نماز کے سامنے حقیر سمجھے گا، اپنے روزہ کو ان کے روزہ کے سامنے حقیر سمجھے گا، اور اپنی قراءت کو ان کی قراءت کے سامنے حقیر جانے گا، (جبکہ ) وہ قرآن تو پڑھیں گے لیکن وہ قرآن ان کے حلق سے اوپر نہیں جائے گا، وہ اسلام سے یوں نکل جائیں گے جیسے تیر شکار میں سے گزر جاتا ہے"۔ اور اہل بدعت مثلاً رافضہ ، قدریہ اور جہمیہ وغیرہ کے ہاں ایسے اجتہاد بکثرت پائے جاتے ہیں جن کا اہل سنت کے ہاں کوئی وجود نہیں ، نہ علم میں نہ عمل میں ، اسی طرح اہل کتاب اور مشرکین کے ہاں ایسے بے تکے اجتہادات کا ایک ڈھیر ہے (جو اہل اسلام میں نہیں پائے جاتے) ، لیکن شریعت کا اصل مطلوب "احسن " اجتہاد ہے، جیسا کہ فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے اللہ عزوجل کے اس فرمان:{لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا} (الملك:2)ترجمہ: "تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون احسن عمل کرتا ہے"، کے متعلق فرمایا: "احسن عمل سے مراد ہے سب سے خالص اور سب سے درست"، تو پوچھا گیا کہ : "ابو علی ، سب سے خالص اور سب سے درست سے کیا مراد ہے؟"، فضیل بن عیاض رحمہ اللہ نے فرمایا: "عمل اگر خالص ہوگا درست نہیں ہوگا تو قبول نہیں ہوگا، اور اگر درست ہوگا لیکن خالص نہیں ہوگا تو بھی قبول نہیں ہوگا، جب تک کہ وہ سب سے خالص اور سب سے درست نہ ہوجائے ، اور خالص ہونے کا مطلب ہے کہ وہ عمل صرف اور صرف اللہ عزوجل کے لئے کیا جائے ، اور درست ہونے کا مطلب ہے کہ وہ عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہو" [2]۔
[1] الحلیۃ لأبی نعیم (3/9) [2] التسعینیہ لابن تیمیہ (962)