کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 72
یہ قاعدہ قرآن وسنت اور آثار سلف سے ہر لحاظ سے متصادم ہے، قرآن سے اس کا ٹکراؤ یوں ہے کہ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {كَانُوْا لَا يَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ}(المائدة: 79) ترجمہ: "(اور اس لعنت کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ) وہ جو برا کام کرتے تھے ایک دوسرے کو اس سے منع نہیں کرتے تھے۔ بیشک وہ کام برے تھے جنہیں وہ انجام دیتے تھے"۔اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {لَوْلَا يَنْهَاهُمُ الرَّبَّانِيُّوْنَ وَالْأَحْبَارُ عَنْ قَوْلِهِمُ الْإِثْمَ وَأَكْلِهِمُ السُّحْتَ لَبِئْسَ مَا كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ}(المائدة: 63) ترجمہ: " بھلا ان کے مشائخ اور علماء انہیں گناہ کی باتوں اور حرام کھانے سے منع کیوں نہیں کرتے؟ بلا شبہ برا ہے جو وہ کرتے ہیں "۔
سنت سے بھی یہ قاعدہ متصادم ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : "تم میں سے جو شخص کسی برائی کو دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے روکے ، اگر اس کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے روکے اگر اس کی بھی استطاعت نہ رکھے تو اس کو اپنے دل میں برا جانے اور یہ ایمان کا سب سے کم ترین درجہ ہے"۔ اور جہاں تک سلف صالحین کے آثار کا تعلق ہے تو عمر رضی اللہ عنہ کا مذکورہ اثر اس حوالہ سے ہمارے لئے کافی ہے۔
اختاف محمو د اور اختلاف مذموم:
شریعت کی نظر میں جو اختلاف مذموم ہے وہ یہ ہے کہ عقیدہ اور منہج میں سلف صالحین کی مخالفت کرنا، جہاں تک اہل علم کا آپس میں احکام و مسائل میں اختلاف ہے جیسا کہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں بھی بعض مسائل میں اختلاف رہا تو یہ اختلاف قطعاً مذموم نہیں ہے، بلکہ اس پر تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ فرمان صادق آتا ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حاکم کے بارے میں فرمایا کہ:"اگر وہ اجتہاد کرتا ہے اور درست اجتہاد کرتا ہے تو اس کے لئے دو اجر ہیں اور اگر اس کے اجتہاد میں غلطی ہوتی ہے تو اس کے لئے ایک اجر ہے" [1]۔
اور ایسا بھی نہیں ہے کہ سلف صالحین کے ہر مخالف پر گمراہی کا حکم لگادیا جائے، کیونکہ شریعت الہیہ کی مخالفت کبھی تو کفر کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے ، کبھی فسق اور گناہ کے درجہ تک ہوتی ہے اور کبھی صرف خطا اور غلطی کے درجہ تک محدود رہتی ہے، اور غلطی کے درجہ پر اس شخص کی مخالفت ہے جس کے نزدیک وہ اصول قابل احترام و لائق ِتعظیم ہوں جن اصولوں پر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین قائم تھے، لیکن اپنے اجتہاد کی بنیاد پر وہ سلف صالحین کی مخالفت کر بیٹھے، اور اس اجتہاد میں کسی کتاب یا شیخ سے متاثر ہو کر اس سے غلطی سرزد ہوئی ہو، اور ہماری یہ بات اس شخص کے بارے میں ہے جو فوت ہوچکا ہو، جہاں تک وہ شخص ہے جو ابھی حیات ہو (اور کسی مسئلہ میں سلف صالحین کی مخالفت کر رہا ہو) تو اس کا فتنہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہنوز برقرار ہے، اور جو
[1] صحیح بخاری ( کتاب الاعتصام ، 6919)