کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 71
قال رحمه اللّٰه تعالى:’’ وقال عمر بن الخطاب رضي اللّٰه عنه: لا عذر لأحد في ضلالة ركبها حسبھا هدى، ولا في هدى تركه حسبه ضلالة، فقد بينت الأمور، وثبتت الحجة، وانقطع العذر‘‘. مؤلف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "اب کسی کے لئے عذر نہیں رہتا کہ اس نے جس گمراہی کو اختیار کر رکھا ہے اسے ہدایت سمجھے یا جس ہدایت کو اس نے چھوڑ رکھا ہے اسے گمراہی خیال کرے ، کیونکہ اب تمام معاملات بالکل واضح کردئیے گئے ہیں ، حجت قائم ہوچکی ہے ، اور تمام اعذار منقطع ہوچکے ہیں"۔ اہل بدعت کی خوش فہمیاں اور لغو اعذار شرح اوروضاحت عمر رضی اللہ عنہ سے منقول اس اثر کی سند اگرچہ منقطع ہے لیکن اس سے ملتے جلتے الفاظ میں یہ قول جناب عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے۔صحیح بخاری میں عمر بن الخطاب کا یہ قول مروی ہے کہ:"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں لوگوں کا مؤاخذہ وحی کی بنیاد پر ہوتا تھا، اور اب وحی منقطع ہوچکی ہے ، لہذا اب ہم لوگوں کا ان کے ظاہری اعمال کی بنیاد پر مؤاخذہ کریں گے ، لہذا جن کے ظاہری اعمال ہمارے سامنے خیر کے ہوں گے ہم ان سے مطمئن ہوں گے ، اور انہیں اپنے قریب کریں گے، اور ان کے پوشیدہ اعمال سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ، ان کے پوشیدہ اعمال کا محاسبہ اللہ عزوجل ہی فرمائے گا، اور جس کے ظاہری اعمال برے ہوئے تو ہم اس سے مطمئن نہیں ہو ں گے اور ہم اسے سچا نہیں مانیں گے چاہے وہ کتنا ہی کہتا رہے کہ اس کے پوشیدہ اعمال بہت اچھے ہیں"۔ مؤلف رحمہ اللہ کے مذکورہ بالا الفاظ سے ذکر کردہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اثر کی شرح : اس اثر کے تحت منہج سے متعلق انتہائی اہم مسائل مندرج ہوتے ہیں : (پہلا مسئلہ) اس اثر سے ایک مشہور قاعدہ کا بطلان ہوتا ہے جو ایسی جماعتوں کے ہاں معروف ہے جن جماعتوں کی دعوت کی بنیاد کتاب و سنت اور آثار سلف صالحین کے علم پر مبنی نہیں ہے۔اور وہ قاعدہ یہ ہے کہ :"جن دینی معاملات پر ہمارا اتفاق ہو ان پر ہم اکٹھے ہوجائیں گے اور جن دینی معاملات میں ہمارا اختلاف ہواس میں ہم ایک دوسرے کے لئے عذر تراش لیں گے(اور اختلاف کو نظر انداز کریں گے)"۔