کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 69
موافقت کے ساتھ ساتھ ان پر رد کرنے کے دروازے اپنے اوپر بند کرلئے ، بلکہ یہ اس حد تک آگے بڑھ گئے کہ انہوں نے (اپنے خود ساختہ اصول بنا کر) دشمنان اسلام کے لئے قرآن وسنت کی مخالفت کے دروازے اور راستے کھول دئے، پھر یہ معاندین اسلام انہی (اہل بدعت) کے دروازے سے داخل ہوئے اور انہی کے تیار کردہ راستے پر چل کر ان (اہل بدعت) کے ساتھ مل کر وحی کی مخالفت میں ایک ہی لشکر کی صورت اختیار کرگئے، اور ان سب کے سب نے ایک ہی دعوی کیا کہ "عقل وحی کے مخالف ہے"، لہذا اہل باطل پر رد اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کہ خود اس شخص میں سنت کی مکمل اتباع نہ ہو، ورنہ اگر کوئی شخص ایک پہلو سے سنت کی موافقت کرے اور دوسرے پہلو سے سنت کی مخالفت کرے تو اس کے مخالفین (اہل باطل) اس کے سنت کی مخالفت والے پہلو کو بنیاد بنا کر اس کا رد کریں گے، اور جو شخص اہل باطل کے ان عمومی دلائل کا جائزہ لے جو وہ اہل حق کے خلاف دیتے ہیں تو وہ باآسانی یہ جان سکتا ہے کہ یہ دلائل اس شخص کے خلاف زیادہ قوی اور موثر ہیں جس نے کتاب اللہ اور پیغام رسالت میں موجود حق سے ذرا سی بھی روگردانی کی ہو، اور حق کے جس پہلو سے وہ روگردانی کرتا ہے وہ اس کےخلاف اہل باطل کی سب سے بڑی دلیل بن جاتی ہے، اور آپ اہل کلام کی اکثریت کا یہی طرز عمل پائیں گے کہ وہ کبھی اہل باطل کے ساتھ ہوں گے اور کبھی اہل حق کے ساتھ ہوں گے، اور حق و باطل کے درمیان ان کا یہی تذبذب اہل باطل کے لئے دلیل بن جاتا ہے اور وہ ان اہل کلام پر حاوی ہوجاتے ہیں ، لیکن الحمد للہ اہل باطل کے پاس ایسے شخص کے خلاف کوئی راستہ نہیں بچتا جو ہر لحاظ سے سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے اور اس سے روگردانی نہ کرے، لیکن اگر وہ ایک انچ کے برابر بھی سنت سے باہر نکلتا ہے تو اہل باطل اس انچ کے بقدر اس پر حاوی ہوجاتے ہیں ، لہذا سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ایک مضبوط قلعہ ہے، جو اس قلعہ میں داخل ہوگیا وہ محفوظ ہے، اور اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيْهِمْ}(الانفال: 33) ترجمہ: "اور اللہ تعالیٰ ایسا نہ کرے گا کہ ان میں آپ کے ہوتے ہوئے ان کو عذاب دے"،اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہی درحقیقت وہ صراط مستقیم ہے کہ جو اس پر چلے گا وہ اللہ عزوجل تک ضرور پہنچے گا، اور یہی وہ واضح دلیل ہے کہ جس نے اس سے حجت پکڑی وہی ہدایت یافتہ ہے، تو جو شخص اہل باطل کی کسی بات پر بھی موافقت اختیار کرتا ہے ، اہل باطل اس کی اس موافقت کے ذریعہ اسے گھسیٹ کر اپنے باطل کی طرف لے جاتے ہیں، اس کی بعض اہل علم نے ایسی مثال بیان کی ہے جو مکمل طور پر اس بات پر منطبق ہوتی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ : حق کی مثال ایک بڑی سیدھی شاہراہ کی مانند ہے، اور اس شاہراہ کے دونوں جانب لٹیرے اور چور ہیں ، اور ان چوروں کے ساتھ راہزن عورتیں بھی ہیں جنہیں ان چوروں نے زیورات پہنا کر دیکھنے والوں کے لئے بڑا خوبصورت تیار کیا ہوا ہے، جب آدمی اس راستہ سے گزرتا ہے تو یہ عورتیں اسے اپنی طرف لبھاتی ہیں ، پھر اگر وہ ان کی طرف مائل ہوتا ہے تو وہ عورتیں اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی ہیں ، اگر وہ ان کی باتوں کا جواب دیتا ہے تو یہ عورتیں اسے (پھنسا کر) جائے مقتل کی طرف کھینچ لیتی ہیں ، اور موت اسے اس حال میں دبوچتی