کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 67
ہونے سے محفوظ رکھے" [1]۔
2۔ اہل بدعت کا یہ مذموم دعوی ہےکہ قرآن وحدیث کے نصوص ہی میں مکمل دین نہیں ہے اور نہ ہی یہ نصوص لوگوں کی زندگی کو منظم اور منضبط کرنے کے لئے کافی ہیں۔ اور اس دعوی میں اہل بدعت کی دو قسمیں ہیں :
٭ وہ لوگ جو بڑی صراحت اور وضاحت کے ساتھ یہ دعوی کرنے کی جرأت کرتے ہیں۔
٭ وہ لوگ جو اگرچہ بڑی صراحت کے ساتھ ایسا دعوی نہیں کرتے لیکن ان کے اقوال اور مذہب سے یہ بات لازم آتی ہے۔
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اہل بدعت کی اس بات کہ "قرآن وحدیث کے نصوص میں مکمل شریعت موجود نہیں" یا پھر یہ بات کہ "قرآن وحدیث کے نصوص میں تو شریعت کا دسواں حصہ بھی مذکور نہیں " (نعوذ باللہ من ذلک) کے متعلق فرماتے ہیں:"یہ بات بعض اہل کلام اور اہل رائے جیسا کہ ابوالمعالی وغیرہ نے کہی ہے ، اور یہ بات سراسر غلط ہے ، بلکہ صحیح بات یہ ہے کہ نصوص قرآن وحدیث میں بندوں کے تمام افعال کے متعلق احکامات موجود ہیں ، اور جس شخص نے اس کا انکار کیا ہے تو اس کے انکار کی وجہ محض یہ ہے کہ وہ قرآن وحدیث کے نصوص جو کہ دراصل اللہ جل جلالہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین ہیں ان کا صحیح معنی نہیں سمجھ سکا اور نہ ہی بندوں کے جملہ افعال کے متعلق ان نصوص کا تفصیلی احکامات پر مشتمل ہونا ہی اسے نظر آیا ہے، اور اس (کج فہمی ) کا سبب یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جوامع الکلم دے کر مبعوث فرمایا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کلام فرماتے تو ایسے جامع الفاظ ادافرماتے جو ایک قاعدہ کلیہ کی حیثیت اختیار کرجاتے، جس قاعدہ کے تحت بے شمار مسائل آتے ہیں ، اور اس طریقہ سے نصوصِ شریعت بندوں کے جملہ افعال کے تفصیلی احکامات پر محیط ہیں[2]۔
امام شاطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پہلے دین اور دنیا کے تمام ضروری مسائل بیان فرمادئیے تھے، اور اس بات پر اہل سنت کا اتفاق ہے، ایک طرف یہ معاملہ ہے تو (دوسری طرف ) بدعتی کی زبان حال اور مقال کا ماحاصل یہ نکلتا ہے کہ شریعت مکمل نہیں ،بلکہ اس میں کافی چیزیں ایسی ہیں (جو ناقص ہیں اور ) جن کو مکمل کرنا یا تو واجب ہے یا کم از کم مستحب ہے، کیونکہ اگر بدعتی شریعت کو ہر لحاظ سے مکمل سمجھتا تو کوئی نیا عمل نہ کرتایا کسی شرعی عمل میں اضافہ نہ کرتا، پس اس (شریعت کو نامکمل سمجھنے ) کا قائل صراط مستقیم سے کوسوں دور اور گمراہ ہے۔ ابن ماجشون
[1] الصواعق المرسلہ (3/926-927)
[2] مجموع الفتاوی (19/280)