کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 66
ہوتا ہے، اور ان قوال کے معنی ایسے متشابہ ہوتے ہیں اور ان کے الفاظ میں اتنا ابہام ہوتا ہے کہ ان اقوال سے حق وباطل دونوں مراد لئے جاسکتے ہیں ، تو ان اقوال میں جو معنی حق ہوتا ہے اسے پیش نظر رکھتے ہوئے بے علم لوگ اس کے متشابہ معنی کا شکار ہوجاتے ہیں اور اس کا باطل معنی بھی قبول کرلیتے ہیں، [1]پھر (مزید ستم یہ کہ) وہ اس باطل معنی کو انبیاء کے فرامین سے ٹکراتے ہیں ، اور یہی اس گمراہی کا پیش خیمہ اور ابتدا ہے جس میں ہم سے پہلے کی امتیں گمراہ ہوئیں، اور یہی تمام بدعتوں کا نکتہ آغاز ہے، کیونکہ بدعت اگر پہلی نظر میں ہی باطل ہو تو اسے کوئی بھی قبول نہیں کرے گا، اور ہر ایک پہلی فرصت میں ہی اس کا انکار کردے گا،اور اگر وہ محض حق ہو (یعنی اس میں باطل کی آمیزش نہ ہو) تو پھر وہ بدعت نہیں ہے بلکہ وہ سنت کے موافق ہے، لیکن درحقیقت بدعت میں حق اور باطل دونوںکا اشتباہ پایا جاتا ہے، اور اس میں حق وباطل خلط ملط ہوجاتے ہیں، جیسا کہ اللہ عزوجل فرمان ہے: {وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَأَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ }(البقرة: 42)، ترجمہ: "اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بوجھ کر نہ چھپاؤ"، مذکورہ آیت میں اللہ جل جلالہ نے حق کو باطل کے ساتھ ملانے اور حق کو چھپانے سے منع فرمایا ہے، اور ایک دوسرے کے ساتھ ملانے کا مطلب ہے کہ ان دونوں کو آپس میں اس طرح خلط ملط کردیا جائے کہ دونوں ایک دوسرے کا لبادہ اوڑھ لیں (اورایک ہی جیسے دکھائی دینے لگیں)، اور "تلبیس "(یعنی دھوکہ دہی ) کرنا بھی اسی سے ماخوذ ہے اور یہی وہ تدلیس اور دھوکہ ہے جس کا باطن کچھ اور ہوتا ہے اور ظاہر کچھ اور، اسی طرح حق کو جب باطل کے ساتھ ملادیا جاتا ہے تو ملانے والا باطل کو حق کی صورت میں ظاہر کرتا ہے ، اور ایسے الفاظ کے ساتھ بیان کرتا ہے جس کے دو معنی ہوتے ہیں : ایک حق ، اور دوسرا باطل، سننے والا سمجھتا ہے کہ کہنے والے کی مراد صحیح معنی ہے جبکہ کہنے والے کا مقصد درحقیقت باطل معنی بیان کرنا ہوتا ہے، یہ معاملہ تو لفظ میں ابہام کا ہوا، جہاں تک معنی میں اشتباہ(یعنی متشابہ ہونے ) کا تعلق ہے تو اس لحاظ سے معنی کی دوقسمیں ہیں، ایک معنی حق ہے ، دوسرا معنی باطل ہے ، تو اہل بدعت اس متشابہ معنی کو بیان کرکے یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ حق اور صحیح معنی اختیار کررہے ہیں ،جبکہ درحقیقت ان کا ارادہ باطل معنی کو اختیار کرنا ہوتا ہے۔ تو بنی آدم کی گمراہی کی بنیادی وجہ مجمل الفاظ اور متشابہ معنی ہے خصوصا جب یہ مجمل الفاظ اور متشابہ معنی نیم دیوانہ ذہن کے ہتھے لگ جائیں ، اور پھر کیا حالت ہوگی جب خواہش نفس اور مذہبی تعصب بھی اس میں شامل ہوجائے!، لہذا آپ دلوں کو ثابت قدم رکھنے والے مولی جل جلالہ سے دعا کریں کہ وہ آپ کا دل اپنے دین پر قائم رکھے اور آپ کو ان اندھیروں میں غرق
[1] جیسے کچھ لوگ عشق رسول اورتعظیم اولیاءکا نام لیکر قبرپرستی اور شرک کا ارتکاب کرتے ہیں ،بعض لوگ آئمہ ومجتہدین کے احترام کا نام پرتقلید وجمود کی راہ ہموار کرتے ہیں اور قرآن وحدیث سے اعراض کرتے ہیں ۔