کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 63
حریص ہوتے ہیں ، وہ اس کی طرف لوگوں کو بلاتے بھی ہیں اور ترغیب بھی دلاتے ہیں،[1]اس کے ساتھ ساتھ وہ اہل توحید میں اختلاف اور تفرقہ کورد کرتے ہیں اور لوگوں کو اس اختلاف سے ڈراتے ہیں ، اور ان کی یہ خصوصیت ان کے نام میں بڑے واضح طور پر ملاحظہ کی جاسکتی ہے، پس وہ اہل سنت والجماعت (یعنی سنت والے اور جماعت والے ) ہیں ، اور کیوں نہ
[1] (بقیہ حصہ)(2)اللہ کے افعال کا باب : افعال سے مراد اللہ تعالی کے تمام پاکیزہ افعال جو قرآن وحدیث میں مذکور ہیں اور جو مذکور نہیں ہیں، جیسا کہ پیدا کرنا اور علم رکھنا ، ارادہ کرنا وغیرہ۔ اہل بدعت اس باب میں بھی دو انتہاؤں کو پہنچے ہیں ۔ ایک طرف قدریہ ہیں جو تقدیر کا انکار کرتے ہیں اور کہتے ہیں بندوں کے افعال بندے خود تخلیق کرتے ہیں اللہ جل جلالہ اس کی تخلیق نہیں کرتا، بلکہ (نعوذ باللہ) اللہ جل جلالہ کو اس کا علم بھی جب ہوتا ہے جب بندہ وہ عمل کرگزرتا ہے۔ دوسری طرف جبریہ ہیں جو یہ کہتے ہیں بندوں کے افعال اللہ جل جلالہ ہی تخلیق فرماتا ہے اور بندہ کا اس میں کوئی ارادہ اور کوئی عمل دخل نہیں ، اور بندہ مجبورِ محض ہے۔ اہل سنت والجماعت ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہیں ، ان کاعقیدہ ہے کہ بندوں کے افعال اللہ جل جلالہ تخلیق تو فرماتا ہے لیکن اس معاملہ میں بندہ مجبور محض نہیں ، بلکہ اس کا بھی ارادہ اور مشیئت ہے ، اور اسی وجہ سے وہ اپنے اعمال کا جوابدہ بھی ہے اور اس پر اجر یا سزا کا مستحق بھی ہے۔
(3)وعدہ اور وعید کا باب: اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ جل جلالہ نے مغفرت کا وعدہ بھی کیا ہے اور جہنم کی وعید بھی دی ہے ، نیکیوں پر جنت کی خوشخبری ہے اور گناہوں پر جہنم کی وعید۔ اس باب میں بھی اہل بدعت دو انتہاؤں پر پہنچےہیں ۔ ایک طرف حروری ہیں یعنی خوارج ، انہیں حروری اس لئے کہا جاتا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ کے دور میں علی رضی اللہ عنہ سے معرکہ آرائی کے لئے اور جنگ کی تیاری کے لئے ان کا تجمع اور اجتماع حروراء مقام پر ہوا تھا ، ان کا عقیدہ ہے کہ گناہ کبیرہ کا مرتکب ابدی جہنمی ہے اور اس کے لئے کوئی مغفرت نہیں ہے، نہ ہی وہ شفاعت کا حقدار ہے، دوسری طرف مرجئہ ہیں ، مرجئہ ارجاء سے ہےاور ارجاء کا مطلب ہوتا ہے کسی چیز کو پیچھے کردینا، انہیں مرجئہ اس لئے کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ایمان کی تعریف میں سے عمل کو نکال دیا ، ان کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ہوتے ہوئے کوئی گناہ نقصان نہیں دیتا ، اس لئے کوئی گناہ گار جہنم میں نہیں جائے گا ، البتہ کافر جہنم میں جائے گا، بلکہ بعض مرجئہ تو اس حد تک غلو کرگئے کہ انہوں نے کافروں کے لئے بھی جنت کو حلال کردیا، اور معاذ اللہ ان کے نزدیک شیطان بھی مومن ہے کیونکہ وہ اللہ پر اعتقاد رکھتا ہے ، اور فرعون بھی مومن ہے کہ وہ دل سے اللہ پر ایمان رکھتا تھا۔۔۔!۔ اہل سنت والجماعت ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان گناہ کبیرہ کا ارتکاب کر لے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج نہیں ہوتا البتہ اس کا معاملہ اللہ جل جلالہ کے ہاتھ میں ہے ، اللہ جل جلالہ چاہے تو اسے معاف کرکے بغیر عذاب دئیے جنت میں داخل کردے ، چاہے تو عذاب دے کر جنت میں داخل کردے ، اور گناہ کبیرہ کا مرتکب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے حق سے محروم نہیں ہوتا۔
(4)ایمان اور دین کے نام کا باب: یعنی انسان کو کب مومن اور کب کافر کہا جائے گا ، اس باب میں بھی اہل بدعت دو انتہاؤں پر ہیں ۔ایک طرف خوارج اور معتزلہ ہیں جن کے نزدیک گناہ کبیرہ کا مرتکب دائرہ اسلام سے خارج ہے اور اگر بغیر توبہ کے فوت ہوگیا تو ابدی جہنمی ہے ، البتہ ان دونوں کا اس بات پر اختلاف ہے کہ اسے کافر کہا جائے گا یا نہیں ، خوارج کے نزدیک وہ کافر ہے البتہ معتزلہ کے نزدیک وہ کفر اور ایمان کے درمیان ایک مرتبہ پر ہے، وہ نہ کافر ہے نہ مومن۔دوسری طرف مرجئہ ہیں جن کے نزدیک مرتکب کبیرہ کا ایمان بھی فرشتوں اور انبیاء کے ایمان کی طرح ہی ہے اس میں کوئی کمی نہیں ہوتی۔اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ان دونوں کے وسط میں ہے کہ مرتکب کبیرہ مسلمان ہے کافر نہیں ہے،البتہ اس کا ایمان فرشتوں کے برابر بھی نہیں ہے ، بلکہ اس کےایمان میں اس کے گناہوں کے بقدر کمی ہوتی ہے ، اور اعمال صالحہ کے ساتھ ساتھ ایمان بڑھتا ہے۔
(5)صحابہ رضی اللہ عنہم کا باب: اہل بدعت صحابہ کے باب میں بھی دو انتہاؤں پر ہیں ، ایک طرف خوارج ہیں جنہوں نے اہل بیت سمیت تمام صحابہ کو جنہوں نے جنگ جمل و صفین میں شرکت کی انہیں (نعوذ باللہ) کافر قرار دیا ہے ، دوسری طرف روافض ہیں جو اہل بیت کی تعظیم میں اس حد تک چلے گئے کہ انہیں معبود کے درجہ تک لے گئے، جبکہ باقی تمام صحابہ بشمول ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ، خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی تکفیر یا تبرا کرتے ہیں۔ اہل سنت والجماعت ان دونوں کے درمیان راہ اعتدال پر ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ صحابہ کرام تمام انبیاء کے بعد سب سے افضل قوم ہیں ، ان کی تعظیم کرنا ، ان سے محبت کرنا ، ان کے لئے دعا کرنا واجب ہے، البتہ ان کی تعظیم میں غلو نہیں کرنا چاہئے اور جو ان کا صحیح مقام ہے اور ان کی شان کے لائق ہے وہی مقام ان کو دینا چاہئے۔