کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 58
4۔اللہ عزوجل کی کسی بھی صفت کے بارے میں جو بات کی جائے گی وہ بات تمام صفات پر لاگو ہوگی [1]۔
5۔اللہ عزوجل کی صفات کے بارے میں کوئی بات کرنا درحقیقت اللہ عزوجل کی ذات کے متعلق بات کرنے کا شاخسانہ ہے [2]۔
6۔صفات باری تعالی میں نفی اور اثبات کے لئے محض انہی الفاظ کو لازم پکڑاجائے جو شرعی الفاظ ہیں [3]۔
عقیدہ سلف صالحین کے امتیازات اور خصوصیات:
1۔ اس عقیدہ کی سیرابی پاکیزہ صاف چشمہ یعنی قرآن وحدیث سے ہوئی ہے ، جو کہ خواہشات اور شبہات کی میل کچیل
[1] اس اصول کا مطلب یہ ہے کہ بعض اہل بدعت یعنی اشاعرہ اور ماتریدیہ فرقے قرآن وحدیث میں ذکر کردہ اللہ جل جلالہ کی صفات میں سے صرف سات صفات کا اقرار کرتے ہیں ، باقی صفات کا اس بنیاد پر انکار کرتے ہیں کہ ان صفات کے اقرار سے یا تو "حدث" یعنی اللہ جل جلالہ کے لئے جدیدیت لازم آتی ہے کہ اللہ جل جلالہ نے یہ کام ابھی حال میں انجام دیا ہے جبکہ اللہ جل جلالہ ازل سے ہے اور اللہ جل جلالہ کی تمام صفات ازل سے ہیں یا پھر ان صفات کے اقرار سے اللہ جل جلالہ کی مخلوق سے مشابہت لازم آتی ہے ۔ تو ان سے یہ بات کہی جائے گی کہ اگر ان سات صفات کے اقرار سے نہ اللہ جل جلالہ کے لئے "حدث" لازم آتا ہے نہ مشابہت لازم آتی ہے ، تو باقی صفات جو قرآن مجید اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں مذکور ہیں ان کے متعلق بھی یہی بات کی جائے گی کہ اللہ تعالی اپنی ان صفات کے ساتھ موصوف ہے جیسے اللہ کی شان کے لائق ہے، اور ان صفات کے اقرار سے بھی نہ اللہ جل جلالہ کے لئے "حدث" لازم آتا ہے ،اور نہ ہی مخلوق کے ساتھ مشابہت۔
[2] یعنی جس طرح اللہ جل جلالہ کی ذات کا تمام فرقے اقرار کرتے ہیں اور اس ذات کو کسی مخلوق کے مشابہ قرار نہیں دیتے جبکہ تمام مخلوقات بھی ذات رکھتی ہیں، تو اسی طرح اللہ جل جلالہ کی ان تمام صفات کا بھی اقرار کرنا چاہئے جو قرآن وحدیث میں مذکور ہیں اور یہ نہیں کہنا چاہئے کہ فلاں صفت کا اقرار کرنے سے مخلوقات سے مشابہت لازم آتی ہے بلکہ ان صفات کے متعلق بھی وہی بات کی جائے گی جو اللہ جل جلالہ کی ذات کے متعلق کی گئی ہے، ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "صفات باری تعالی کے متعلق بات کرنا ایسا ہی ہے جیسا اللہ جل جلالہ کی ذات کے متعلق بات کرنا ، کیونکہ اللہ جل جلالہ کے مثل کوئی چیز نہیں ، نہ اللہ جل جلالہ کی ذات میں ، نہ صفات میں ، نہ افعال میں ، تو جب اللہ جل جلالہ کی حقیقتاً ایسی ذات موجود ہے جو مخلوقات کی ذات کے مشابہ نہیں ہے ، تو یہ ذات ایسی صفات بھی رکھتی ہے جو مخلوقات کی صفات کے مشابہ نہیں ہے" (الرسالۃ التدمریۃ : 3/25)۔
[3] قرآ ن مجید اور حدیث شریف میں اللہ جل جلالہ کی صفات کے متعلق دو طرح کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے : (۱) نفی : اس اسلوب کو تنزیہی اسلوب کہا جاتا ہے ، یعنی اللہ جل جلالہ سے ان صفات کی نفی کرنا جو اللہ جل جلالہ کی شان کے لائق نہیں ، جیسا کہ خود قرآن مجید میں کئی مقامات پر اس اسلوب کو اختیار کیا گیا قرآن مجید میں کئی مقامات پر اللہ تعالی نے فرمایاٖ: "اس کے مثل کوئی چیز نہیں " ، سورہ اخلاص میں آخری دو آیات میں یہی اسلوب اختیار کیا گیا کہ : " اس کی اولاد نہیں ، اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے ، اور نہ ہی کوِئی اس کا ہمسر ہے"۔اسی طرح آیت الکرسی میں ذکر کیا گیا کہ : "اسے نہ نیند آتی ہے نہ اونگھ "۔ (۲) اثبات : اس اسلوب کے ذریعہ ان تمام صفات کو اللہ جل جلالہ کے لئے ثابت کیا گیا ہے جو اللہ جل جلالہ کی شان کے لائق ہیں ، جیسا کہ اللہ جل جلالہ کا حی اور قیوم ہونا، سمیع وبصیر ہونا، رحمن ورحیم ہونا، علیم وخبیر ہونا، خالق و مالک ہونا، غرض یہ کہ ہر وہ صفت جس سے ذات باری تعالی متصف ہے اور وہ صفت اللہ کی شان کے لائق ہے تو اس کااثبات قرآن وحدیث میں کیا گیا ہے ۔ لیکن دونوں اسلوب میں فرق یہ ہے کہ تنزیہی اسلوب میں اجمال ہےاور اثبات میں تفصیل ہے ، یعنی جن صفات کی نفی کرنی ہے انہیں اجمالا بیان کیا گیا ہے ، اور جن صفات کا اثبات کرنا ہے انہیں تفصیلا بیان کیا گیا ہے ، یہی وجہ ہے کہ پورے قرآن میں تنزیہی اسلوب صرف آٹھ سے دس مقامات پر اختیار کیا گیا ، جبکہ اثبات کا اسلوب تقریبا ہر آیت میں یعنی ہزاروں مقامات پر اختیار کیا گیا ، جبکہ اہل بدعت نے اس کے برعکس اسلوب اختیار کیا ، وہ اثبات بہت کم کرتے ہیں ، البتہ نفی میں تفصیل کرتے ہیں ،ا ور اس کے ساتھ ساتھ اثبات اور نفی میں ایسے الفاظ اختیار کرتے ہیں جو قرآن وحدیث میں نہیں ہیں بلکہ ان کے خود ساختہ ہیں ،مثلاً یہ کہ :"اللہ جل جلالہ وہ ذات ہے جو واجب الوجود ہے، جس کی آنکھیں نہیں ہے ، جس کی زبان نہیں ہے ، ہونٹ نہیں ہے ، وہ کلام نہیں کرتا ۔۔۔۔"الخ۔ جبکہ اہل سنت والجماعت اسلوب بھی وہی اختیار کرتے ہیں جو قرآن وحدیث کا ہے اور الفاظ بھی صرف وہی بیان کرتے ہیں جو شریعت میں وارد ہوئے ہیں۔(مترجم)