کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 57
شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"شرعی دلائل دو قسم کے ہیں : (۱) سمعی دلائل۔ (۲) عقلی دلائل ۔ (اس کی تفصیل یہ ہے کہ ) شرعی دلائل سے مراد ایسے دلائل ہیں جنہیں شریعت نے ثابت کیا ہے اور بطور دلیل کے پیش کیا ہے، اور دلیلِ شرعی سے وہ معاملات بھی مراد لئے جاتے ہیں جن کو شریعت نے مباح قرار دیا ہے اور اس کی اجازت دی ہے، تو سمعی دلائل تو وہ ہیں جو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خبر کے ذریعہ ہی معلوم ہوسکتے ہیں ، البتہ عقلی دلائل وہ ہیں جنہیں شریعت نے بطور دلیل کے پیش کیا اور اس کی طرف توجہ دلائی ہے" [1]۔
5۔ علم کلام ، فلسفہ اور ایسے غیبی امور جو عقل سے ماواراء ہوں اس میں جانے سے گریز کرنا ، اورقرآن وحدیث کے فرامین کے متعلق اہل کلام کی باطل تاویلات کا رد کرنا۔
6۔ کسی مسئلہ کے متعلق قرآن وحدیث میں ذکر کردہ تمام دلائل کو یکجا کرکے باہمی تطبیق دینا (پھر اس مسئلہ کے متعلق کوئی رائے قائم کرنا)۔
اہل سنت والجماعت ، اللہ عزوجل کے اسماء و صفات [2]کے معاملہ میں گزشتہ اصولوں کے ساتھ ساتھ چند اور اصول بھی ذکر کرتے ہیں جو یہ ہیں :
1۔ اللہ عزوجل کو صرف ان صفات کے ساتھ موصوف کیا جائے جو صفات خود اللہ عزوجل نے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہیں ، اور اس معاملہ میں قرآن و حدیث سے ہرگز بھی تجاوز نہ کیا جائے۔
2۔اس بات کا قطعی یقین ہو کہ جو صفات اللہ عزوجل نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ عزوجل کے لئے بیان فرمائی ہیں ان صفات میں مخلوق کے ساتھ کسی قسم کی تشبیہ (مشابہت ) نہیں ہے۔
3۔اللہ عزوجل کی صفات کی کیفیت کو سمجھنے کی چاہت سے قطعی طور پر گریز کیا جائے ۔[3]
[1] درء تعارض العقل والنقل (1/199)
[2] اللہ جل جلالہ کی صفات اور اسماء کے معاملہ میں اہل کلام نے بہت اختلاف کیا ہے، بعض نے سرے سے ہی صفات کا انکار کردیا ، بعض نے چند صفات کا انکار کیا اور کچھ کا اقرار کیا ، اور یہ سب انکار و اقرار ان کے خود ساختہ اصولوں اور قاعدوں کی بنیاد پر تھے، یہی وجہ ہے کہ اہل سنت والجماعت نے قرآن وحدیث کے بغور مطالعہ اور سلف صالحین کے آثار کی روشنی میں چند اصول ذکر کئے ہیں جن کے ذریعہ اہل کلام کی تمام باطل تاویلات کا رد بھی ممکن ہے اور اسماء وصفات جیسے نازک باب میں کسی غلطی سے بھی محفوظ رہا جاسکتا ہے۔(مترجم)
[3] اس اصول کی وجہ یہ کہ انسان کو بہت کم عقل اور علم دیا گیا ہے ، جیسا کہ اللہ جل جلالہ کا فرمان ہے: {وَمَآأُوتِيْتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلَّا قَلِيْلًا} (الاسراء: 85)، ترجمہ:"اور تمہیں بہت کم علم دیا گیا ہے"، اسی لئے انسان بہت سے معاملات کو سمجھنے سے قاصر ہے ، ان کی حقیقت کی مکمل معرفت اس کے بس کی بات نہیں ، کئی مخلوقات ایسی ہیں جن کی حقیقت سے انسان صحیح طور پر آگاہ نہیں ، بلکہ انسان خود اپنے اندر موجود روح کی حقیقت سے لاعلم ہے ، وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ روح کیا چیز ہے ، جب انسان بہت سی مخلوقات کی حقیقت اور کیفیت کو سمجھ نہیں سکتا تو خالق کائنات ، اللہ جل جلالہ کی صفات کی کیفیت کو کیسے سمجھ سکتا ہے ، اسی لئے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ اللہ جل جلالہ کی صفات پر ایمان لانا واجب ہے البتہ صفات کی کیفیت کے بارے میں غور وخوض نہ کیا جائے کہ اللہ جل جلالہ کا ہاتھ کیسا ہے ، اللہ جل جلالہ کا چہرہ کیسا ہے ، اللہ جل جلالہ عرش پر کیسے مستوی ہے وغیرہ وغیرہ، کیونکہ اللہ جل جلالہ کی صفات کو سمجھنے کی ہم صلاحیت ہی نہیں رکھتے ہیں۔