کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 55
3۔ اہل سنت والجماعت ہمیشہ ظاہری معنی کو لیتے ہیں اور اس میں تاویل سے گریز کرتے ہیں ، اور اہل سنت کے ہاں یہی قاعدہ ہے کہ (قرآن وحدیث کے ) الفاظ کا ظاہری معنی لیا جائے جس پر حقیقت دلالت کررہی ہو، کیونکہ قرآن عربی زبان میں نازل ہو ا ہے لہذا جو اسے سمجھنا چاہے تو وہ عرب کی زبان سے ہی سمجھے۔ قرآن وحدیث کے معانی اور اللہ عزوجل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ان الفاظ سے حقیقی مراد کو سمجھنے کے لئے لغت ِقرآن کی معرفت اور صحابہ کرام و تابعین اور ان کے نقش قدم پر چلنے والے علماء کے اقوال کی معرفت نہایت معاون اور مددگار ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " مقصد یہ ہے کہ جو کچھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اور الفاظ قرآن اور حدیث سے جو بھی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد ہے وہی اصلی علم ، ایمان اور سعادت و نجات ہے"۔ اور قرآن وحدیث کے ایسے الفاظ جن کی مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ہی بیان فرمادی ہے تو اس کے متعلق اہلِ لغت وغیرہ کے اقوال سے استدلال لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے، اور ایسے حالات میں اللہ عزوجل اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کردہ معنی ومراد کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔ اس کی مثال لفظ ایمان ، اسلام ، کفر، نفاق ، صلاۃ ، صیام ، حج وغیرہ ہے، ان تمام الفاظ کی مراد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کافی شافی طریقہ سے واضح فرمادیا ہے۔ اس قاعدہ کا ایک جزوی مسئلہ یہ ہے کہ اہل سنت والجماعت اعتقادی مسائل کے بیان میں شرعی الفاظ کے استعمال پر اکتفاء کرتے ہیں اور ایسے نئے نئے الفاظ اور اصطلاحات کو استعمال نہیں کرتے جو علم کلام ، منطق اور فلسفہ کو شرعی علوم کا حصہ بنائے جانے کے نتیجہ میں پیدا ہوئے[1]۔ 4۔اہل سنت والجماعت ایسے مجمل الفاظ استعمال نہیں کرتے جن میں ایک سے زائد معانی کا احتمال ہو، اور اگر اہل بدعت وغیرہ ایسے الفاظ استعمال کریں تو اہل سنت ان سے ان الفاظ کی مراد کی وضاحت طلب کرتے ہیں ، اگر وہ مراد حق ہو تو اسے قبول کرتے ہیں اور اگر ان کی مراد باطل ہوتو اسے رد کردیتے ہیں [2]۔ابن ابی العز حنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " تعبیر میں
[1] جیسا کہ اہل سنت والجماعت اللہ عزوجل کے لئے اہل کلام وفلسفہ کی طرح واجب الوجود کا لفظ استعمال نہیں کرتے بلکہ حی، قیوم کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو قرآن وحدیث میں بکثرت استعمال ہوا ہے۔(مترجم) [2] ایسے الفاظ کا ستعمال اہل بدعت نے اللہ عزوجل کی صفات کے باب میں بکثرت کیا ہے ، جیسا کہ لفظ "جسم " ، "حیز"، "واجب الوجود"۔اب لفظ "جسم " قرآن و حدیث میں استعمال نہیں ہوا ہے لہذا اس لفظ کا اللہ عزوجل کے لئے استعمال کرنا بدعت ہے، لیکن اس لفظ کا بالکلیہ انکار نہیں کیا جائے گا کیونکہ یہ ایک مجمل لفظ ہے ، لہذا اس کی وضاحت طلب کی جائےگی کہ کہنے والے کی مراد کیا ہے ، اگر اس کی مراد وہ جسم ہے جو عربی زبان میں استعمال ہوا ، یعنی اگر اس سے مراد بدن ہے تو یہ باطل معنی ہے کیونکہ اہل سنت والجماعت اللہ کے لئے بدن ثابت نہیں کرتے کیونکہ اللہ عزوجل کے مثل کوئی چیز نہیں ہے ، اور اگر کہنے والے کی مراد یہ ہے کہ اللہ تمام صفات سے موصوف ہے کہ وہ دیکھتا بھی ہے سنتا بھی ہے ، اس کے ہاتھ بھی ہیں ، چہرہ بھی ہے اور پنڈلیاں بھی ہیں ، تو یہ معنی حق ہے اور ایسے جسم کا انکار نہیں کیا جائے گا، لیکن اللہ سنتا ہے ، دیکھتا ہے ، اس کا چہرہ ، ہے اس کے ہاتھ ہیں اللہ عزوجل کی یہ تمام صفات ایسی ہیں جیسے اس کی شان کے لائق ہیں اور اس کے مثل کوئی چیز نہیں ۔(مترجم)