کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 49
میں تبدیلی حکمت کا تقاضا ہے" [1]یا " ہماری دعوت تو مسلمانوں کو ہے مشرکوں کو نہیں ہے"، ہم یہ باتیں کہنے والے کے متعلق اچھا گمان رکھتے ہیں کہ اس بیچارے کا علم ہی اتنا ہے لیکن در حقیقت یہ تمام باتیں اللہ عزوجل اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت، اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے راستے سے انحراف پر مبنی ہیں، جبکہ نوح علیہ السلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان (زمانہ کی دوری کے سبب ) حالات میں جو تبدیلی ہوئی اس کی وجہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان سے پہلے کے انبیا ء کی رسالتوں کے اصول ومبادی میں کسی قسم کا رد وبدل واقع نہیں ہوا، اور منہجِ دعوت میں تبدیلی کرنے کے لئے موجودہ زمانہ کے مسائل کو بنیاد بنانے کا جو شبہ ہے وہ بھی بالکل باطل اور بلا جواز ہے، کیونکہ نہ صرف آج کے زمانہ میں بلکہ تمام زمانوں میں اہم ترین مسئلہ وہی ہے جس کے لئے اللہ عزوجل نے انسانوں اور جنات کوپیدا فرمایا ہے اور وہ ہے اللہ عزوجل کی خالص عبادت ، اور اس یقینی مستقبل کی تیاری جس میں کوئی شک نہیں ہے ، یعنی موت، قبر کے سوالات، حساب وکتاب، اور پھر جزا وسزا۔ 6۔ جس شخص نے دعوت الی اللہ کی ذمہ داری اٹھائی ہو اس کے لئے یہ لائق نہیں ہے کہ وہ یہ گمان کرے کہ نیکوکار مسلمانوں کو توحید عبادت کی جانب دعوت دینے اور شرک سے ڈراتے رہنے کی ضرورت نہیں ہے ، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا اختتام اسی دعوت پر ہوا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا آغاز ہوا تھا، صحیح بخاری ومسلم میں ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کاوقت آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی چادر کو اپنے چہرہ مبارک پر ڈالتے اور جب کچھ افاقہ ہوتا تو چادر ہٹالیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: "اللہ عزوجل کی لعنت ہو یہود ونصاری پر کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنالیا"، یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم (مرض وفات میں بھی )ان کے اس شرکیہ عمل سے بچنے کی تلقین فرمارہے تھے ۔[2] یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنے اہل بیت، خلفاءاور اپنے اصحاب کو آخری نصیحت تھی، اور یہ تمام ہستیاں مسلمانوں کے لئے تاقیامت بہترین نمونہ ہیں۔ 7۔ کسی مسلمان کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ مسلمانوں کے درمیان روز بروز شرک کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ کے متعلق یہ بہانے تراشتا رہے کہ "یہ عمل کرنے والوں کی نیت اچھی ہے" ، یا "وہ تو یہ عمل کرکے اللہ عزوجل کا قرب حاصل کرنا چاہتے ہیں" ، یا " وہ بیچارے لاعلم ہیں "۔کیونکہ اللہ عزوجل نے گزشتہ مشرکین کے انہی اوصاف پر ان کی مذمت کی تھی ، اللہ عزوجل کا فرمان ہے:
[1] ہمارے معاشرے میں بھی بہت سے داعیان اسلام ایسے ہیں جو خود اگرچہ توحید پر کاربند ہیں، مسائل توحید و شرک سے آگاہ ہیں لیکن میدان دعوت میں توحید کی دعوت دینے سے ہچکچاتے ہیں اور اسی قسم کی بودی دلیلوں کا سہارا لے کر خود ساختہ حکمتوں اور مصلحتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اور پھر نہ صرف یہ کہ دعوت بلکہ انداز دعوت میں بھی تبدیلی کے خواہاں ہوتے ہیں۔(مترجم) [2] صحیح بخاری (کتاب الصلاۃ ، ابواب المساجد: 425)، صحیح مسلم (کتاب المساجد: 531)