کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 48
(صحیفے) ابراہیم اور اسمعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا ہوئیں ان پر اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمبروں میں سے کسی میں فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (الہ واحد) کے فرمانبردار ہیں"۔ 4۔تمام انبیاء کی دعوت توحید میں یکساں ہے البتہ فرعی مسائل تمام امتوں کے مختلف ہیں، اللہ عزوجل کافرمان ہے: {لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا } (المائدة: 48)، ترجمہ: " تم میں سے ہر امت کےلئے ہم نے ایک شریعت اور ایک راہ عمل مقرر کی ہے"۔اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم انبیاء کی جماعت علاتی بھائی ہیں[1]، اور ہمارا دین ایک ہے"[2]، لہذا یہ ممکن ہے کہ کسی نبی کی شریعت میں وہ عمل جائز ہو جو کسی اور نبی کی شریعت میں ناجائز ہو، لہذا توحید کو توحید حاکمیت سے تعبیرکرنا درست نہیں ہوگا ۔[3] 5۔ بے شک اللہ عزوجل بندوں کا خالق ہے، ان کے احوال کاخوب علم رکھنے والاہے، اورہر حال و کیفیت میں بندوں کے لئے جو معاملہ بہتر ہو اس کی خبر بھی اللہ عزوجل ہی کو ہے، اور اسی نے اپنے تمام رسولوں اور ان کی قوموں کے لئے اس منہج دعوت کو اختیار فرمایا ہے ، لہذا کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ اپنے لئے یا کسی اور کے لئے اللہ عزوجل کے بتائے گئے منہج و طریقہ کو چھوڑ کر اپنی مرضی سے رہنمائی واصلاح کا کوئی اور طریقہ کار اختیار کرلے۔ ہمارے لئے کسی بھی طرح یہ جائز نہیں کہ ہم بے جان اور بھونڈی دلیلوں کو بنیاد بنا کر اللہ عزوجل ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے راستے سے الگ ہوجانے کو جائز قرار دیں محض اس بنیاد پر کہ "آج حالات بدل چکے ہیں " ، یا "لوگ ایک ہی بات کی تکرار سے بیزار ہوچکے ہیں " ، یا "عصر حاضر کے مسائل سے نبرد آزما ہونے کے لئے دعوت دین کے انداز
[1] یہ حدیث پہلے بھی گزری ہے ، علاتی بھائی وہ ہوتے ہیں جن کا باپ ایک ہو مائیں الگ الگ ہوں ، یعنی جو باپ کی طرف سے سگے ہوں ، یہاں پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد یہ ہے کہ انبیاء کی شریعتیں اور احکامات ان کے زمانے اور اقوام کے حالات کے لحاظ سے الگ الگ ہوتے ہیں ، لیکن بنیادی طور پر سب کی دعوت ایک ہی ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالی کو وحدہ لاشریک لہ تسلیم کرنے کی دعوت ہے۔(مترجم) [2] صحیح بخاری (کتاب احادیث الانبیاء : 3442) [3] کیونکہ توحید تمام انبیاء کے دور میں ایک ہی رہی ہے اب اگر شریعت کے نفاذ کو توحید حاکمیت سے تعبیر کریں گے تو درج بالا آیت اور حدیث سے یہ واضح ہورہا ہے کہ ہر نبی کی شریعت یکساں نہیں رہی بلکہ ان میں فرق آتا رہا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید میں فرق آتا رہا ہے جبکہ حدیث سے واضح ہے کہ توحید ہمیشہ ایک ہی رہی ہے۔ اس کی ایک اور دلیل یہ بھی ہے کہ توحید کی دعوت تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوم کو دی ہے ،جبکہ صرف چند ہی انبیاء ایسے ہیں جنہیں اللہ عزوجل نے دنیا میں حکومت اور قوت دی کہ وہ شریعت الہی کو بزور طاقت نافذ کرسکیں ، اگر ہم توحید کا معنی صرف حاکمیت ہی کریں یا توحید حاکمیت کو توحید کا لازمی جز قرار دیں تو اس کا منطقی مفہوم یہ ہوگا کہ صرف چند ہی انبیاء نے توحید کی صحیح دعوت دی باقی تمام انبیاء کی توحید کی دعوت ناقص تھی اور یہ بات ناممکن و محال ہے۔لہذا اس کا مطلب یہ ہوا کہ توحید کا معنی صرف توحید حاکمیت کرنا، یا توحید حاکمیت کو توحید کا لازمی جز قرار دینا درست نہیں ، بلکہ توحید دراصل توحید عبادت ہے۔(مترجم)