کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 47
2۔ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں نوح علیہ السلام سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک آنے والے انبیاء میں سے بعض کے واقعات ہمیں بتائے ہیں ، تو جن اقوام کی جانب یہ رسول بھیجے گئے وہ مختلف جگہوں ، مختلف زمانوں اور تہذیبوں سے تعلق رکھتی تھیں ، اس کے باوجود بھی رسالت کی اساس اور بنیاد کبھی نہیں بدلی، اور کبھی بھی بلکہ ایک مرتبہ بھی دعوت الی اللہ کے نقطہ آغاز میں تبدیلی واقع نہیں ہوئی ۔ 3۔ تمام رسالتیں اور تمام رسولوں کی دعوت کی ابتداء اللہ عزوجل کو عبادت میں یکتا ماننے اور اس کے علاوہ تمام معبودان باطلہ کی نفی سے ہوتی ہے، اور یہی کلمہ لا الہ الا اللہ کا معنی اور مقصد ہے۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: [وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِكَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِيْٓ اِلَيْهِ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ](الانبیاء: 25)ترجمہ: "اور جو پیغمبر ہم نے تم سے پہلے بھیجے ان کی طرف یہی وحی بھیجی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری ہی عبادت کرو"۔اور اسی طرح اللہ عزوجل نے تفصیل کے ساتھ نوح ، ہود، صالح اور شعیب میں سے ہر ایک کے بارے میں ذکر کیا کہ انہوں نے اپنی اپنی قوموں سے یہی بات کہی کہ: {اعْبُدُوا اللّٰهَ مَا لَكُمْ مِنْ إِلٰهٍ غَيْرُهُ}(الاعراف: 65) ترجمہ: "تم اللہ کی عبادت کرو اس کے سوا کوئی تمہارا معبود نہیں"، اور مشرکین نے بھی رسالت کا مقصد توحید عبادت ہی کو سمجھا تھا، جیسا کہ اللہ عزوجل نے قوم عاد کی یہ بات نقل فرمائی کہ : {أَجِئْتَنَا لِنَعْبُدَ اللّٰهَ وَحْدَهُ وَنَذَرَ مَا كَانَ يَعْبُدُ آبَاؤُنَا} (الاعراف: 70) ، ترجمہ: "کیا تو ہمارے پاس اس لئے آیا ہے کہ ہم ایک ہی اللہ کی عبادت کریں اور جنہیں ہمارے آباؤ اجداد پوجتے رہے انہیں چھوڑ دیں؟ "، اور کفار مکہ نے بھی یہی کہا کہ : {أَجَعَلَ الْآلِهَةَ إِلٰهًا وَاحِدًا} (ص: 5) ، ترجمہ: "کیا اس نے اتنے معبودوں کی جگہ ایک ہی معبود بنا دیا!"، اور اللہ عزوجل نے واضح فرمادیا ہے کہ توحید ہی اس امت کے لئے اللہ عزوجل کی مقرر کردہ شریعت ہے ، اور یہی وہ شریعت ہے جس کی تلقین اللہ عزوجل نے نوح علیہ السلام، محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، ابراہیم علیہ السلام ، موسی علیہ السلام اور عیسی علیہ السلام کو فرمائی تھی، اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰى بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْٓ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖٓ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰى وَعِيْسٰٓى اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ ۭ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ ۭ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَاۗءُ وَيَهْدِيْٓ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ } (الشورى: 13)، ترجمہ: "اس نے تمہارے لئےدین کا وہی طریقہ مقرر کیا جس کا نوح کو حکم دیا تھا اور جو ہم نے آپ کی طرف وحی کیا ہے اور جس کا ابراہیم ، موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا کہ دین کو قائم رکھو اور اس میں تفرقہ نہ ڈالنا"۔اور امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کا توحیدکی دعوت دینے میں جو مظہر اتحاد ہے اس کے متعلق فرمایا: {قُوْلُوْٓا آمَنَّا بِاللّٰهِ وَمَا أُنْزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنْزِلَ إِلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَإِسْمَاعِيْلَ وَإِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَالْأَسْبَاطِ وَمَآ أُوتِيَ مُوْسٰى وَعِيْسَى وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّوْنَ مِنْ رَبِّهِمْ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْهُمْ وَنَحْنُ لَهُ مُسْلِمُوْنَ}(البقرة: 136) ، ترجمہ: " (مسلمانو!) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری اس پر اور جو