کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 46
نزدیک ایک ہی سکہ کے دو رخ ہیں ، اور ان کے نزدیک شرک محض سیاسی شرک ہے۔
[1]اوریقیناً یہ اس نظریہ توحید کے معنی و مفہوم میں تحریف ہے جس توحید کا حکم اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو دیا ہے ، اور اس شرک کے معنی میں بھی تحریف ہے جس شرک سے اس نے اپنے بندوں کو باز رہنے کی تلقین کی ہے، اور توحید اور شرک کا جو معنی یہ لوگ کرتے ہیں اس کا بے شمار دلائل سے رد کیا جاسکتا ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں :
1۔ دعوت دین کا طریقہ و منہج واضح اور ثابت ہے اور کبھی اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی ، کیونکہ اللہ کی جانب بلانا دراصل عبادت ہے ، اور عبادت میں کتاب و سنت اور خلفاء راشدین کے طریقہ کی اتباع لازم ہے ، چاہے زمانہ کتنا ہی دور کا ہو اور کتنا ہی بدل کیوں نہ گیا ہو۔
[1] بقیہ حصہ)(۱) تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ معنی توحید الوہیت اور توحید ربوبیت میں موجود ہے تو الگ سے اس کے لئے قسم بنانے کی کیا ضرورت ہے؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ محض غیر اسلامی نظام کی مخالفت کے سہارے باقی توحید و شرک کے تمام معاملات کو پس پشت ڈالنا ہو؟ یا پھر توحید حاکمیت کا نعرہ لگا کر حکمران وقت کو کافر قرار دے کر اپنے لئے حکومت تک پہنچنے کی راہ ہموار کرنا مقصود ہو؟ یہ سوال اس وقت مزید شدت اختیار کرجاتا ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ توحید حاکمیت کا نعرہ بلند کرنے والی جماعتیں ایسے افراد کو تو ہم جماعت کرلیتی ہیں جو قبر پرست ہوں ، جنہیں نہ توحید الوہیت اور نہ توحید ربوبیت کا پاس ہو، ایسے افراد سے ان جماعتوں کو کوئی اختلاف نہیں ہوتا، البتہ ان کا پورا زور صرف حکمرانوں کی مخالفت اور احتجاجات اور مظاہرات پر ہوتا ہے، ان کی نظر میں عبادت کا شرک کوئی بڑا گناہ نہیں بلکہ اصل گناہ سیاسی شرک ہے۔ شیخ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: "حاکمیت تو، توحید الوہیت میں شامل ہے اور عصر حاضر میں جو افراد توحید حاکمیت کی اس جدید اصطلاح کے بارے میں بڑبڑاتے رہتے ہیں وہ دراصل اس اصطلاح کو ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں ، ان کا مقصد مسلمانوں کو اس توحید سے آگاہ کرنا نہیں ہوتا جو توحید تمام انبیاء اور رسول لےکر آئے۔۔۔" مزید فرماتے ہیں: "لفظ حاکمیت کا ستعمال اس سیاسی دعوت کی تکمیل کے لئے ہے جو سیاسی دعوت آج کل کی کچھ جماعتوں کاخاصہ ہے۔۔۔اور وہ دعوت جس کی جانب ہم لوگوں کو بلاتے ہیں اس میں حاکمیت بھی ہے اور اس کے علاوہ بھی مکمل توحید موجود ہے، (یعنی ) توحید الوہیت اور ربوبیت میں حاکمیت کے تعلق سے وہ تمام عناصر موجود ہیں جن کا تم واویلا مچاتے ہو"۔(جریدہ المسلمون : عدد 639)۔
شیخ عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں: " جو شخص اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ توحید کی چوتھی قسم ہے جس کانام توحید حاکمیت ہے تو وہ بدعتی ہے، اور یہ تقسیم ایک ایسے بدعتی کی اختراع ہے جسے دین اور عقیدہ کا فہم نہیں ہے، اس لئے کہ توحید حاکمیت اس لحاظ سے توحید ربوبیت میں داخل ہے کہ اللہ تعالی جو چاہتا ہے وہ فیصلہ فرماتا ہے ، اور توحید الوہیت میں اس لحاظ سے داخل ہے کہ انسان پر واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی کے احکامات پر عمل پیرا ہوکر اللہ تعالی کی عبادت کرے، لہذا توحید حاکمیت ، توحید کی تین قسموں سے باہر نہیں ہے"۔(جریدہ المسلمون : عدد 639)
(۲) دوسری بات یہ ہے کہ جو افراد او ر جماعتیں توحید حاکمیت کا نعرہ لگاتی ہیں ان کے نزدیک توحید الوہیت اور ربوبیت کی کوئی اہمیت نہیں ، بلکہ اصل اہمیت یہ ہے کہ قوانین میں، حدود میں ، آئین میں شریعت کا نفاذ ہو، جہاں تک عقائد کا تعلق ہے ، مزارات اور قبر پرستی کی بات ہے تو ان کے نزدیک یہ معمولی باتیں ہیں جن پر مسلمانوں کو اختلاف نہیں کرنا چاہئے!!، یعنی اصل توحید بھی سیاسی ہے اور شرک بھی سیاسی ہے، اور پورا قرآن صرف اسی توحید کو بیان کرنے کے لئے نازل ہوا ہے۔شیخ عبیلان رحمہ اللہ نے توحید کے اسی غلط معنی پر تقریبا ۱۴ پہلوؤں سے رد فرمایا ہے، جس کی تفصیل آئندہ صفحات میں آرہی ہے۔
اگلی چند سطور میں شیخ عبیلان رحمہ اللہ ان کے اسی نظریہ کا رد کر کے یہ بیان فرمارہے ہیں کہ اصل توحید، توحید الوہیت اور توحید ربوبیت ہے، اور اس کے قرآن وحدیث میں بے شمار دلائل ہیں۔(از مترجم)