کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 45
"توحید حاکمیت" کے نام پر بہت سے داعیان اسلام کا توحید کے حقیقی معنی ومفہوم سے انحراف۔ (فصل ) عصر حاضر کے بہت سے داعیان اسلام کا ایک ایسے انتہائی اہم ترین معاملہ میں سلف صالحین کی فہم کے برخلاف چلنا جس کے لئے اللہ عزوجل نے اپنے بندوں کو پیدا فرمایا ہے اور وہ معاملہ ہے " توحید باری تعالی ": ان داعیان اسلام میں سے اکثریت کو ہم نے دیکھا ہے وہ اس بات کے قائل ہیں کہ حقیقی توحید صرف اور صرف توحید حاکمیت ہے ، یعنی حدود ، معاملات اور معاہدوں وغیرہ میں شریعت کا نفاذ کرنا ،[1]یعنی شریعت اور عصر حاضر کی سیاست انکے
[1] سلف صالحین کے ہاں توحید کی تین اقسام ہیں : (۱) توحید ربوبیت۔ یعنی اللہ عزوجل کے افعال میں اللہ تعالی کو یکتا و تنہا تسلیم کرنا،یہ عقیدہ رکھنا کہ تخلیق کرنا ، رزق دینا، موت دینا ، زندہ کرنا ، مصیبتوں کو دور کرنا، بیماری اور شفا ء یہ سب اللہ عزوجل ہی کے ہاتھ میں ہے۔ (۲) توحید الوہیت ۔ اس قسم کو علماء نے توحید عبادت کا بھی نام دیا ہے ، یعنی عبادت صرف اللہ عزوجل کے لئے خاص کرنا۔نماز روزہ قربانی ، نذر ونیاز ، دعا ودیگر اعمالِ عبادت کو صرف اور صرف اللہ عزوجل کے لئے انجام دینا۔ (۳) توحید اسماء و صفات۔ یعنی قرآن و حدیث میں اللہ عزوجل کے لئے ذکر کردہ تمام اسماء حسنی و پاکیزہ صفات کا اثبات کرنا اور ان اسماء و صفات میں کسی مخلوق کو اللہ عزوجل کا شریک نہ کرنا۔ توحید حاکمیت کی اصطلاح جدید ہے اور اس کاسلف صالحین کے ہاں وجود نہیں ہے، یہ اصطلاح سب سے پہلے مولانا مودودی نے اپنی کتابوں میں ذکر کی اور پھر اس اصطلاح کو سید قطب نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا جس کے بعد یہ اصطلاح معروف ہوگئی ، مودودی صاحب نے چونکہ اردو میں اس اصطلاح کو متعارف کرایا تھا اس لئے عربی قواعد کی کتابوں میں اس لفظ کا کوئی تذکرہ نہیں ملتا ہے۔ بہرحال توحید حاکمیت کا بنیادی تصور یہ ہے کہ حاکم صرف اللہ تعالی کی ذات ہے ، قوانین اسی کے تجویز کردہ ہیں ، انسان پر یہ واجب ہے کہ وہ ان قوانین الہیہ کی پابندی کرے، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: { إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ} (الانعام: 57) ترجمہ: حکم صرف اللہ تعالی کا ہے" ایک اور مقام پر فرمان الہی ہے: {أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ} (الاعراف: 54)، ترجمہ: "دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی اسی کا ہے" ۔ اور جو شخص اللہ تعالی کے قوانین سے ہٹ کر کسی اور قانون کو وضع کرتا ہے یا اس پر عمل پیرا ہوتا ہے تو وہ حاکمیت میں غیراللہ کو اللہ کا شریک بناتا ہے ، جیسا کہ پارلیمنٹ میں شریعت کے برخلاف قوانین کی طرحداری و تشکیل یا عدالتوں میں ایسے قوانین کا نفاذ جو برطانیہ یا فرانس یا کسی اور غیر اسلامی نظام سے درآمد شدہ ہوں یہ توحید حاکمیت سے متصادم ہے۔اب توحید حاکمیت کے قائلین کی نظر میں جن افراد کی توحید حاکمیت میں نقص ہے یا وہ کسی غیر اسلامی نظام پر عمل پیرا ہیں تو درحقیقت وہ اسلام کی بنیاد سے متصادم ہونے کی بناء پر دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ سید قطب نے ایسے تمام اسلامی ممالک جن میں نظام جمہوریت یا غیر اسلامی قوانین نافذ تھے ان میں رہنے والے تمام افراد پر توحید حاکمیت میں خلل ہونے کی بنیاد پر انہیں مشرک قرار دیتے ہوئے تکفیر کا فتوی لگایا اور نئے سرے سے اسلامی معاشرہ کی تشکیل پر زور دیا۔ توحید حاکمیت کے اس تصور کے حوالہ سے چندضروری باتیں پیش نظررکھنی چا ہئیں: توحید حاکمیت کے بنیادی تصور کا کوئی مسلمان انکار نہیں کرسکتا ، بلکہ ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کو تنہا حاکم تسلیم کرے اور شرعی قوانین پر عمل پیرا ہو، اور غیر اسلامی قوانین جنہیں علماء نے طاغوت قرار دیا ہے ان سے مکمل اجتناب کرے ۔ لیکن معاملہ یہ ہے کہ توحید حاکمیت کا یہ تصور توحید الوہیت اور توحید ربوبیت میں موجود ہے، وہ اس طرح کہ اللہ تعالی کا حکم دو قسم کا ہے : (۱) حکم کونی : یعنی پیدا کرنا ، مارنا، رزق دینا، شفا دینا، مصائب میں مبتلا کرنا، پریشانیوں سے نجات دینا، یہ تمام فیصلے اللہ تعالی ہی کے ہاتھ میں ہیں ، اور ان معاملات میں اختیار صرف اللہ تعالی ہی کا ہے، اور اسی کا اقرار کرنا توحید ربوبیت ہے۔(۲) حکم شرعی: یعنی اللہ تعالی نے فیصلہ کردیا دن میں پانچ وقت نماز ادا کرنی ہے، رمضان کے روزے رکھنے ہیں، سود حرام ہے، تجارت حلال ہے، شراب حرام ہے، زانی کو سو کوڑے مارے جائیں گے، شادی شدہ زانی کو سنگسار کیا جائے گا، چور کا ہاتھ کاٹا جائے گا، یہ تمام فیصلے اللہ تعالی کے ہیں ، اور ان پر ایک مسلمان کو سر تسلیم خم کرنا ہے ، اور اسی تسلیم اور رضا کو عبادت کہتے ہیں ، اور ان تمام امور کو خالصتا اللہ تعالی کے لئے بجا لانا ہی دراصل توحید الوہیت ہے۔(بقیہ اگلے صفحے پر۔۔۔