کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 44
اس اثر سے مذکورہ اصول پر استدلال اس طرح ہےکہ یہ ناممکن ہے کہ اللہ عزوجل اس امت میں سب سے نیک دل ، سب سے زیادہ صاحب علم ، سب سے کم تکلفات میں پڑنے والے ، سب سے زیادہ ہدایت پر چلنے والے ، سب سے زیادہ پاکیزہ حال والے افراد کو درست احکامات سے محروم رکھے اور ان کے بعد والوں کو اس کی توفیق دیدے۔ عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " بے شک لوگوں نے جب بھی کوئی بدعت اختیار کی ہے تو اس بدعت کا وہ حشر ہوا جو اس کے برخلاف دلیل اور عبرت ونصیحت ہے ، اور سنت کی اتباع وہی شخص کرتا ہے جو یہ بات جانتا ہو کہ سنت کے برخلاف چلنا سراسر غلطی ، حماقت اور جہالت ہے ، لہذا اپنے لئے اس معاملہ پر رضامند ہوجاؤ جس پر وہ (صحابہ کی ) جماعت راضی ہوگئی ۔ اور اسی طرح آپ رحمه الله مزید فرماتے ہیں : "جہاں پر صحابہ کرام نے توقف اختیار کیا وہاں تم بھی توقف اختیار کرو، اور جیسے انہوں نے کہا ویسا ہی تم کہو، اور جس معاملہ پر وہ خاموش ہوگئے تم بھی اس معاملہ پر خاموشی اختیار کرو، کیونکہ انہوں نے محض علم کی بنیاد پر توقف اختیار کیا ہے ، اور اپنی اعلیٰ بصیرت کی بنیاد پر رکے رہے ، اور وہ اس (اللہ عزوجل کی عالی صفات اور اسماء حسنی کے ) معاملہ کی چھان پھٹک کر کے اس کے اسرار کھولنے پر (تم سے ) زیادہ قدرت رکھتے تھے، اور اگر اس معاملہ (میں بحث کرنے اور چھان پھٹک کرنے) میں کو ئی فضیلت ہوتی تو وہ اس کے (تم سے) زیادہ حقدار تھے، اور اگر آج ان بدعتی معاملات کو اختیار کر کے تم ہدایت پر ہوتے تو وہ اس ہدایت پر تم سے کہیں پہلے سبقت لے جاچکے ہوتے ، اور اگر تم کہو کہ یہ معاملات تو ان کے بعد ظاہر ہوئے ہیں ، تو ان بدعات کو ایجادکرنے والا وہی ہوسکتا ہے جو صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے راستے کو چھوڑ کر غیروں کے راستہ پرچلے اورصحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے بے رغبتی اختیار کرے، جبکہ حقیقت یہی ہے کہ صحابہ کرام کی جماعت ہی ہر نیکی اور ہدایت میں سبقت لے جانے والی ہے"۔ اور ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : " اگر مجھے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے یہ بات پہنچتی کہ انہوں نے ناخن سے آگے وضو نہیں کیا تو میں بھی ناخن سے بڑھ کر وضو نہ کرتا، اور کسی قوم کے گناہ گار ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ ان کے اعمال نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اعمال کے برخلاف ہوں " ۔[1]
[1] اللالکائی ، شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعة