کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 43
7۔ جامع ترمذی میں عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے ایک حدیث ہے ، اس حدیث میں وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ۔۔۔۔"اور تم میری سنت اور میرے بعد آنے والے خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑو، اسے مضبوطی سے تھام لو اور اس پر جمے رہو، اور نئے نئے معاملات سے بچو ۔۔۔"۔ اس حدیث سے مذکورہ اصول پر استدلال یوں ہےکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سنت اور اپنے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی سنت کو یکجا فرمادیا اور ان کی سنت کی اتباع کا بھی اسی طرح حکم دیا جس طرح اپنی سنت کی اتباع کا حکم دیا، اور اس معاملہ میں اس قدر مبالغہ فرمایا کہ اسے اپنی ڈاڑھ کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنے [1]کا حکم دیا۔ 8۔ مسند ابو داود الطیالسی کی روایت ہے ، فرماتے ہیں ہمیں مسعودی نے حدیث بیان کی ، وہ عاصم سے ، وہ ابو وائل سے ، وہ ابو مسعود سے روایت کرتے ہیں کہ ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: " بے شک اللہ عزوجل نے بندوں کے دلوں کی طرف دیکھا تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دل سب سے نیک پایا، تو انہیں اپنی رسالت دے کر مبعوث فرمایا، اور اللہ زیادہ علم رکھتا ہے کہ اپنی رسالت کسے عطا فرمائے ، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دل کے بعد اللہ عزوجل نے دوبارہ بندوں کے دلوں کو ٹٹولا، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے دلوں کو تمام بندوں میں سب سے نیک پایا تو انہیں اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت اور اپنے دین کی نصرت کے لئے منتخب فرمایا" ۔[2] اس اثر سے مذکورہ اصول پر استدلال اس طرح ہےکہ یہ بات ناممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سب سے نیک دل والے افراد حق کو نہ پاسکیں اور حق ان کے علاوہ کسی اور کو نصیب ہوجائے۔ 9۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں :" جو شخص کسی کی سیرت اپنانا اور اس کے نقش قدم پر چلنا چاہے تو اسے چاہئے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے نقش قدم پر چلے ، کیونکہ وہ اس امت میں سب سے نیک دل ، سب سے زیادہ صاحب علم ، سب سے کم تکلفات میں پڑنے والے ، سب سے زیادہ ہدایت پر چلنے والے ، سب سے زیادہ پاکیزہ حال والے تھے ، وہ ایسے لوگ تھے جنہیں اللہ عزوجل نے اپنےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے اور اپنے دین کے غلبہ کے لئے منتخب فرمایا تھا، تم ان کے فضل کو پہچانواور اس کا اعتراف کرو، اوران کے آثار کی اتباع کرو، کیونکہ یہی لوگ سیدھی راہ ہدایت پر تھے" ۔[3]
[1] داڑھ کے ساتھ مضبوطی سے پکڑنا دراصل ایک ضرب المثل ہے جو کہ عرب کے ہاں معروف ہے، اس کی وضاحت یوں ہے کہ جیسے سمندر میں ڈوبتے کسی شخص کی جانب رسی پھینکی جائے جو تو وہ جان بچانے کی خاطر انتہائی قوت سے اس رسی کو تھام لیتا ہے اور اور اسے اپنی کمر کے ساتھ باندھنے کے ساتھ ساتھ اس کے سرے کو اپنی ڈاڑھ میں پکڑ لیتا ہے تاکہ رسی اس سے چھوٹنے نہ پائے ، تو گویا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اور اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت کو اس رسی کے ساتھ تعبیر فرماتے ہوئے اسے مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا حکم دیا ہے۔ [2] مسند ابو داود الطیالسی (33) ، مسند احمد (1/379) [3] التمھید لابن عبدالبر (2/97)