کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 42
ہے جس میں مجھے مبعوث کیا گیا ہے ، پھر ان لوگوں کا زمانہ جو ان کے بعد ہیں ، پھر جو ان کے بعد ہیں" [1]
اس حدیث سے مذکورہ اصول پر استدلال اس طرح ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتلا دیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ تمام زمانوں سے بہترین ہے، اور بہترین زمانہ ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اس زمانے کے لوگ( یعنی صحابہ کرام )ہر لحاظ سے سب سے بہتر ہیں ، ورنہ اگر وہ بعض چیزوں میں بہتر ہوں بعض میں نہ ہوں تو وہ علی الاطلاق بہترین زمانہ والے نہ کہلائے جاتے۔
6۔ صحیح مسلم کی روایت میں ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : "ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب کی نماز پڑھائی ، پھر ہم نے کہا کیوں نہ ہم بیٹھ جائیں اور عشاء بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھ کر پھر واپس جائیں ، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) باہر تشریف لائے اور فرمایا: "تم لوگ ابھی تک یہاں موجود ہو؟"، ہم نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ، ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مغرب کی نماز ادا کرنے کے بعد آپس میں کہا کہ ہم بیٹھ جاتے ہیں (انتظار کرتے ہیں ) اور عشاء بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی ادا کر لیتے ہیں "، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم نے اچھا کیا " یا فرمایا: "تم نے ٹھیک کیا"، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بڑی کثرت کے ساتھ اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھایا کرتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"ستارے آسمان کے لئے امن کی علامت ہیں ، جب ستارے ختم ہو جائیں گےتو آسمان پر وہ (تباہی آئے گی ) جس کا اس سے وعدہ کیا گیا ہے، اور میں اپنےصحابہ کے لئے امن کی علامت ہوں ، جب میں چلا جاؤں گا تو میرے صحابہ پر وہ (آزمائشیں ) آئیں گی جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے، اور میرے صحابہ میری امت کے لئے امن کی علامت ہیں ، جب میرے صحابہ چلے جائیں گے تو میری امت پر وہ (فتنے ) آئیں گے جن کا ان سے وعدہ کیا گیا ہے" ۔[2]
اس حدیث سے درج بالا اصول پر استدلال اس طرح ہےکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کی نسبت امت کی طرف اسی طرح کی ہے جس طرح اپنی نسبت صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف کی ہے، اور اس تشبیہ سے ایک بات واضح ہورہی ہے کہ امت کا صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین سے ایسی رہنمائی حاصل کرنا واجب ہے جیسی رہنمائی صحابہ کر ام رضوان اللہ عنہم اجمعین، نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے حاصل کیا کرتے تھے ، اور جیسی رہنمائی زمین والے ،ستاروں سے حاصل کرتے ہیں، اور اسی طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو امت کے لئے شراور اسباب ِ شر سے محفوظ رہنے کی علامت قرار دیا ہے ، لہذا اگر ایسا ممکن ہوتا کہ صحابہ کرام سے کوئی خیر کا عمل رہ جاتا اور بعد والے اس خیر کو پانے میں کامیاب رہتے تو پھر صحابہ کرام کی جگہ ان لوگوں کو امت کے لئے امن اور حفاظت کی علامت قرار دیا جاتا، اور یہ محال و ناممکن ہے۔
[1] صحیح مسلم (کتاب فضائل الصحابۃ: 2533)
[2] صحیح مسلم (کتاب الفضائل: 2531)