کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 41
اس آیت سے مذکورہ اصول پر استدلال اس طرح ہےکہ اللہ عزوجل نے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کو بہترین اور معتدل امت قرار دیا ہے، اور یہی امت وسط (اعتدال اور درمیانی راہ ) کا حقیقی مفہوم ہے[1] ، لہذا صحابہ کرام اپنے اقوال ، اعمال اور نیتوں میں سب سے بہترین اور سب سے معتدل امت ہیں ، اور اسی لئے وہ اس بات کے مستحق ٹھہرے کہ قیامت کے دن اس امت پر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے متعلق گواہی دیں ، اور اللہ عزوجل صحابہ کی اس امت پر گواہی کو قبول فرمائے گا، تو صحابہ کرام ، اللہ عزوجل کے گواہ ہیں ، اسی لئے اللہ عزوجل نے صحابہ کرام کی عظمت کو بیان فرمایا ، ان کی شان کو بلند فرمایا، ان کی بے حد تعریف بیان فرمائی اور اپنے اس فرمان : {وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِيْنَ إِمَامًا} (الفرقان: 74)ترجمہ : "اے اللہ ہمیں تقوی اختیار کرنے والوں کا امام بنادے"، میں صحابہ کرام کو ان کے بعد آنے والوں کے لئے امام قرار دیا، اور چونکہ صحابہ کرام کا تزکیہ خود اللہ عزوجل نے فرمایا ہے اس لئے امامت کے اس وصف کا ان سے بڑھ کر کوئی حقدار نہیں ہوسکتا۔ 4۔اللہ عزوجل کا فرمان مبارک ہے: { قُلْ هٰذِهٖ سَبِيْلِيْٓ اَدْعُوْٓا اِلَى اللّٰهِ عَلٰي بَصِيْرَةٍ اَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ ۭ وَسُبْحٰنَ اللّٰهِ وَمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ } (يوسف: 108) ترجمہ: " آپ ان سے کہہ دیجئے کہ: میرا راستہ یہی ہے کہ میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں۔ میں خود بھی اس راہ کو پوری روشنی میں دیکھ رہا ہوں اور میرے پیروکار بھی۔ اللہ پاک ہے اور مشرکوں سے میرا کوئی واسطہ نہیں"۔ اس آیت سے مذکورہ اصول پر استدلال اس طرح ہےکہ جس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی ، تو بے شک وہ اللہ عزوجل کی طرف یقین محکم اور دلائل کےساتھ دعوت دے رہا ہے اور جو شخص اللہ عزوجل کی طرف دلائل کے ساتھ دعوت دے رہا ہو تو اس کی اتباع کرنا واجب ہے ، جیسا کہ اللہ عزوجل نے جنات کی یہ بات قرآن مجید میں ذکر فرمائی : {يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوْا دَاعِيَ اللّٰهِ وَآمِنُوْا بِهِ}(الاحقاف: 31) ، ترجمہ:" اے ہماری قوم!اللہ کی طرف بلانے والے کی بات مان لو اور اس پر ایمان لے آؤ"، اس لئے کہ جس نے اللہ عزوجل کی طرف یقین محکم اور دلائل کے ساتھ دعوت دی اس نے علم کی بنیاد پر حق کی دعوت دی ہے، اور دین کی دعوت یعنی عقیدہ ، شریعت اور منہج صحیح کی طرف بلانا درحقیقت اللہ کی طرف بلانا ہے ، کیونکہ دین کی طرف بلانا دراصل اللہ عزوجل کے اوامر اور منہیات میں اللہ عزوجل کی اطاعت کی طرف بلانا ہے ، اور صحابہ کرام تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے انتہائی فرمانبردار اور پیروکار تھے ، لہذا جب وہ اللہ عزوجل کی طرف دعوت دیں تو ا ن کی اس پکار پر لبیک کہنا ضروری ہے۔ 5۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فرمان جو صحیح بخاری و مسلم میں موجود ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے بہترین زمانہ وہ زمانہ
[1] یعنی جو اس بات کا دعوی کرتاہے کہ وہ معتدل مزاج ہے، درمیانی راہ کو اختیار کرنے والا ہے تو اس کے دعوی کو پرکھنے کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اس کے عقیدہ ، دین و منہج کا موازنہ صحابہ کرام کے عقیدہ و منہج سے کیا جائے ، اگر وہ صحابہ کرام کے عقیدہ و منہج پر ہے تو یقینا وہ راہ اعتدال پر قائم ہے ورنہ اس کادعوی غلط اور باطل ہے ، کیونکہ اللہ جل جلالہ نے صحابہ کرام ہی کو راہ اعتدال پر قائم جماعت قرار دیا ہے۔(مترجم)