کتاب: منہج اہل حدیث - صفحہ 40
دلوں میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ ہونے دینا ․ اے ہمارے رب تو بڑا شفیق و رحیم ہے "۔اور ایمانیات میں سب سے عظیم ترین چیز علم نافع اور عمل صالح ہے[1] ، اسی لئے اللہ عزوجل نے فرمایا: { فَإِنْ آمَنُوْا بِمِثْلِ مَآ اٰمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا هُمْ فِيْ شِقَاقٍ} (البقرة: 137)، ترجمہ: سواگر یہ اہل کتاب ایسے ہی ایمان لائیں جیسے (اے صحابہ )تم لائے ہو تو وہ بھی ہدایت پا لیں گے اور اگر اس سے منہ پھیریں تو وہ ہٹ دھرمی پر اتر آئے ہیں"، یعنی اگر مشرکین اور یہود ونصاری انکار کریں تو وہ محض اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہیں، پس جو شخص صحابہ کے ایمان جیسا ایمان لائے تو وہی ہدایت یافتہ ہے، اور جو انکی مخالفت کرے گا تو وہ کھلا گمراہ ہے۔
2۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ } (آل عمران: 110)ترجمہ: " تم ہی بہترین امت ہو جنہیں لوگوں (کی اصلاح و ہدایت) کے لیے کھڑا کیا گیا ہے،تم لوگوں کو بھلے کاموں کا حکم دیتے ہو اور برے کاموں سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو"۔
اس آیت سے مذکورہ اصول پر استدلال اس طرح ہے کہ اس آیت میں اللہ عزوجل نے صحابہ کرام کے لئے اس بات کی گواہی دی کہ وہ ہر نیکی کا حکم دیتے ہیں اور ہر برائی سے روکتے ہیں، تو اگر دینی احکامات میں سے کسی حکم کو صحابہ نے درست طور پر انجام نہ دیا ہوتا ، بلکہ اس میں وہ کوتاہی کرتے تو (اس کا مطلب تو یہ ہوتا کہ) نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کے عظیم فرض کو انہوں نے مکمل طور انجام نہیں دیا، کیونکہ صحیح فہم اور نیک عمل ہی درحقیقت نیکی ہے، اور ان دونوں کی ضد کو برائی کہتے ہیں ، چاہے وہ ہر حوالہ سے ضد ہو یا اس میں تھوڑی بہت مخالفت پائی جاتی ہو، تو جب معاملہ ایسا ہی ہے (کہ صحابہ کرام نے ہر نیکی کا حکم دیا ہے اور ہر برائی سے روکا ہے) تو یہ ممکن نہیں کہ وہ خطا پر ہوں اور حق ان کے بعد آنے والوں کو نصیب ہوجائے ۔[2]
3۔ اللہ عزوجل کا فرمان ہے: {وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَاۗءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُـوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا } ( البقرة: 143)، ترجمہ: "اور اسی طرح ہم نے تم کو امت معتدل بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ بنو اور رسول( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ بنیں"۔
[1] یعنی اس امت میں صحابہ کرام سے بڑھ کر کسی کے پاس علم نافع اور عمل صالح نہیں ہے، اسی لئے اللہ عزوجل نے ان کے ایمان کو بطور معیار کے پیش کیا۔
[2] شیخ رحمہ اللہ کی اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ صحابہ کرام نے نیکی کا حکم دینے اور برائی سے روکنے کا فرض ادا کیا ہے اور اس بات کی گواہی اللہ عزوجل نے بھی مذکورہ آیت میں دی ہے، اگر خود صحابہ کرام سب کے سب غلطی پر ہوں تو وہ نیکی کا حکم کیسے دے سکتے ہیں اور اس کی گواہی اللہ عزوجل کیسے دے سکتا ہے ؟، لہذا اس کا منطقی مطلب یہ ہے کہ صحابہ کرام صحیح دین اور منہج پر تھے اور ہمیں بھی صحابہ کرام کے منہج کی اتباع کرنی چاہئے۔(مترجم)